توحید


توحید سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدا نیت ہے ۔ اس لفظ کا ماخذ لفظ واحد ہے  جس کے معنیٰ ایک کے ہیں ۔ علما نے اس عقیدے کی وضاحت کے لئے اسے تین اقسام میں بیان کیا ہے اس میں سے پہلی قسم توحید ربوبیت ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ، مالک اور رازق اللہ تعالیٰ ہے  یعنی نہ تو اس کائنات میں کوئی اس کے ساتھ تخلیق میں شریک ہے نہ ملکیت میں کوئی حصہ دار ہے اور نہ ہی مخلوق کو رزق دینے میں اس کے ساتھ کسی اور کا عمل دخل ہے ۔ اللہ تعالیٰ یکتا و تنہا ہے  اسے کسی کی ضرورت نہیں وہ صمد ہے۔ اگر کسی نے مندرجہ بالا امور میں کسی اور کو اللہ کے ساتھ شریک سمجھا تو اس نے بلا شبہ  شرک کیا اور شرک ایسا گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرتا البتہ اسکے علاوہ جو چاہے معاف کر دے (سورۃ نسا آیات 48 اور 116

اس حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کائنات میں ہونے والی ہر شے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے اور وہ مختارِ کل ہے  مثلا اسی نے بادلوں پر فرشتوں کو مقرر کیا ہے جو بادلوں کو مقررہ مقامات تک پہنچاتے ہیں اور بارش کا سبب بنتے ہیں، اسی کے حکم سے ملک الموت کسی کی روح قبض کرتے ہیں اور اسی کی منشا کے مطابق انبیا کرام اس دنیا میں تشریف لائے تاکہ  انسانوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کریں۔  اور اسی کے حکم کے مطابق جبرئیل امین وحی لایا کرتے ۔لہذا یہ بات واضح  رہے کہ اللہ کے احکامات کو بجالانے کے لئے فرشتے معمور ہیں اور دنیا میں انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے انبیا کرام بھیجے گئے لیکن  ان کے پاس کسی شے کا اختیا ر موجود نہیں تھا  بلکہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اس کی مرضی و منشا کے بغیر کچھ ممکن نہیں ۔ (سورہ التکویر آیت 29 اور سورہ الانسان آیت 30 ، سورہ نجم آیت 26)

توحید کی دوسری قسم توحیدِ الوہیت ہے اس سے مراد یہ ہے کہ خالق، مالک اور رازق اللہ کی ذات کو تسلیم کرنے کے بعد  عبادت بھی صرف اللہ ہی کی کی جائے۔ انسانوں اور جنات کی پیدائش کا مقصد ہی اللہ رب العزت کی عبادت ہے (الذاریات آیت 56)۔ عبادت ہر وہ عمل ہے جو اللہ سے قرب حاصل کرنے کے لیئے کیا جائے مثلا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و صدقات، تسبیحات ، ذکر و اذکاراور جھاد اسی طرح سے ہر قسم کی دعائیں اور التجائیں بھی صرف اللہ سے ہی کی جائیں۔ اگر کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی پکارے تو وہ شرک فی العبادہ کا مرتکب ہو گا (سورۃ البقرۃ آیت 186) اور ساتھ ہی یہ بات بھی ضروری ہے کہ عبادتوں میں ریا کاری نہ ہو کیوں کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے جس میں انسان عبادت اللہ رب العزت کی بجائے لوگوں کے دکھاوے کے لیئے کرتا ہے اور ایسی عبادت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ۔

توحید کی تیسری قسم توحید صفات ہے جس  سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا کوئی شمار نہیں اسکے حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اگر تمام سمندروں کا پانی سیاہی میں بدل جائے اور اللہ کی باتیں لکھی جائیں تو سیاہی ختم ہو جائے لیکن اللہ کی باتیں (صفات و تعریفات) ختم نہ ہوں (سورہ الکہف آیت ۱۰۹)

توحید کے حوالے سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔

و کم من ملک فی السموات  لا تغنی شفعتھم شیا  الا من بعد ان یاذن اللہ لمن یشا و یرضیٰ (۲۶) النجم
اور کتنے ہی فرشتے ایسے  ہیں آ سمانوں میں جن کی شفاعت کچھ فائدہ نہیں دیتی سوائے اس کے کہ اللہ جسے چاہے اجازت دے اور اس پر راضی ہو۔

و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوت الداع اذا دعان فلیستجیبو لی و لیومنو بی  لعلھم یرشدون (۱۸۶) البقرۃ
او جب بندے تجھ سے میرے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں بہت قریب ہوں۔ ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں پس ان کو چاہیئے کہ مجھے پکاریں اور مجھ سے ہی مدد چاہیں تاکہ یہ ہدایت پائیں۔

و من ایتہ الیل و النھار و الشمس و القمر لا تسجدو لشمس و لا للقمر و اسجدو للہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون () حم سجدہ
اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن ہیں اور شورج اور چاند۔ (اور جب تم عبادت کرو تو ) نہ سورج کو سجدے کرو نہ چاند کو  بلکہ اس اللہ کو سجدے کرو جس نے انہیں تخلیق کیا ہے۔

دیکھو اللہ ہی کے لیئے خالص دین ہے  اور جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو حمایتی بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں  کہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کر دیں۔ یقینا اللہ ان کے اختلاف میں فیصلہ فرما دے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ جھوٹے اور ناشکرے کی رہبری نہیں کرتا  ( سورۃ زمر آیت ۳)
انہوں نے  اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی  حالانکہ انہیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں  اور جو مشرکوں کے ہر قسم کے شرک سے پاک اور بلند و برتر ہے ۔ (سورۃ توبہ آیت ۳۱)

یاد رکھو اللہ اپنے ساتھ شرک کیئے جانے کو معاف نہیں کرتا  اور اسکے سوا جسے چاہے معاف کر دے  اور جس نے شرک کیا وہ راہ سے بہت بھٹک گیا ( نسا آیت ۱۱۶)
اس سے بڑھ کر کون  گمراہ ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر  ایسے کو پکار رہا ہے  جو قیامت تک اس کی بات کا جواب نہیں دے سکیں گے  ۔ بلکہ وہ اس کی پکار سے بے خبر ہیں ۔ ( الاحقاف ۵)

و ما یستوی الاحیا و لا الاموات  ان اللہ یسمع من یشا و ما انت بمسمع من فی القبور (فاطر رکوع ۳)
زندہ اور مرد ہ ایک جیسے نہیں ہیں ۔ بے شک اللہ جسے چاہے اسے سنوا سکتا ہے اور تم اسے نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے  کچھ ارشادات توحید کے حوالے سے مندرجہ ذیل ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن سواری  پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا ۔ آپ نے فرمایا اے لڑکے ! میں تجھے چند اہم باتیں بتاتا ہوں انہیں یاد رکھ۔ تو اللہ کے احکام کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا ۔ تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھ  تو اس کو اپنے سامنے پائے گا ۔ ( یعنی اس کی حفاظت اور مدد تیرے ہمرکاب رہے گی )۔ جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے ہی سوال کر  جب تو مدد چاہے تو صرف اللہ سے مدد طلب کر  اور یہ بات جان لے کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تجھے کچھ نفع پہنچانا چاہے تو اس سے زیادہ کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تیرے لیئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے کے لیئے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جتنا اللہ نے تیرے لیئے لکھ دیا ہے  قلم اٹھا لیئے گئے اور کتابیں خشک ہو گئیں۔ (ترمذی)

۲۔ عََنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَک الْاَقْرَبِیْنَ دَعَا النَّبِیُّ ﷺ قَرَابَتَہ فَعَمَّ وَ خَصَّ فَقَالَ یَا بَنِیْ کَعْبِ ابْنِ لُؤَیّ اَنْقِذُوْ اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئاًً اَوْ قَالَ فَاِنّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئاًً وَ یَا بَنِیْ مُرَّۃَ بِن کَعْبٍ اَنْقِذُوْ اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ فَاِنّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئا و یَا بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ اَنْقِذُوْ اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ فَاِنّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئا وَ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ اَنْقِذُوْ اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ فَاِنّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئا وَ یَا بَنِیْ ھَاشِمٍ اَنْقِذُوْ اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ فَاِنّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئا و یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ اَنْقِذُوْ اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ فَاِنّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَئا وَ یَا فَاطِمَۃُ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ سَلِیْنِیْ مَا شِئتِ مِنْ مَالِیْ فَاِنِّیْ لَآ اُغْنِیْ مِنَ اللَّہ شَئیاً (بخاری۔ مسلم)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرما یا کہ جب وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ اَلْاَقْرَبِیْنَ (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ) اتری تو نبی ﷺ نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کرفرمایا اے اولادِ کعب بن لؤی ! اپنی جانوں کا آگ سے بچاو ، میں اللہ کے عذاب سے تمہارے کام نہ آ سکوں گا ۔ اے اولادِ مرۃ بن کعب ! اپنی جانوں کو آ گ سے بچاو ، میں اللہ کے عذاب سے تمہارے کام نہ آ سکوں گا۔ اے اولادِ عبد الشمس ! اپنی جانوں کو آ گ سے بچاو ، میں اللہ کے عذاب سے تمہارے کام نہ آ سکوں گا ۔ اے اولادِ عبدِ مناف ! اپنی جانوں کو آ گ سے بچاو، میں اللہ کے عذاب سے تمہارے کام نہ آ سکوں گا ۔ اے اولادِ ہاشم ! اپنے نفسوں کو آگ سے بچاو، میں اللہ کے عذاب سے تمہارے کام نہ آ سکوں گا۔ اے اولادِ عبد المطلب ! اپنی جانوں کو آ گ سے بچاو ، میں اللہ کے عذاب سے تمہارے کام نہ آ سکوں گا ۔ اے فاطمہ ! اپنی جان کو آگ کے عذاب سے بچا لے ، مجھ سے میرا مال لے لے ، جو کچھ تجھے چاہیے، کیونکہ میں اللہ کے عذاب سے کام نہیں آ وں گا ۔ (بخاری۔مسلم)

 عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَجُل یَا رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ اَیُّ الذَّنْبِ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ قَالَ اَنْ تَدْعُوْ الِلّٰہِ نِداً وَّ ھُوَ خَلَقَکَ (بخاری۔مسلم۔مشکوٰۃ باب الکبائر)
ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ فرمایا کہ تو کسی کو اللہ جیسا سمجھ کر پکارے حالانکہ اللہ نے تجھے پیدا کیا (بخاری۔ مسلم۔ مشکوٰۃ باب الکبائر)

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ اللّٰہَ تَعالیٰ قاَلَ مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا وَّ قَدْ اٰذَنْتُہُ بِا لْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَی ءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَ مَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ فَاِذَا اُحْبِبْتُہ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بہٖ وَ بَصَرَ ہُ الِّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَ یَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَ اِنْ سَاَلَنِیْ اَعْطَیْتُہ وَلَءِنْ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُ عِیْذَنَّہ (رواہ البخاری)
حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے لئے کسی سے دشمنی کرے میں اس سے اعلانِ جنگ کر دیتا ہوں اور بندے پر جو چیزیں میں نے فرض کی ہیں ان سے بڑھ کر کوئی چیز بھی بندے کو میرے قریب کرنے والی نہیں میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آ نکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ اگر وہ کچھ مانگتا ہے تو میں دیتا ہوں ۔ اور اگر وہ کسی چیز سے پناہ طلب کرے تو میں اس ضرور پناہ دیتا ہوں (بخاری)
عن ابی طفیل  ان علیا رضی اللہ عنہ  اخرج صحیفہ فیھا لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ  (مسلم)
ابی طفیل بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک صحیفہ نکالا (جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایات لکھی ہوئی تھیں) اور اس میں  درج تھا کہ اس پر اللہ نے لعنت کی ہے جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا  (مسلم)
معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں  کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو چاہے تمہیں مار دیا جائے یا جلا ڈالا جائے (مسند احمد)
 حضرت عطا بن یسار سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اے اللہ ! میری قبر کو بت  مت بنانا کہ اسے پوجا جائے ۔  اس قوم پر اللہ کا غصہ بھڑک اٹھا جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ۔ (موطا امام مالک)
عن ابی الھیاج  الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان لا تدع تمثالا الا طمستہ و لا قبر مشرفا الا سویتہ ۔ (مسلم)
ابی الھیاج الاسدی بیان کرتے ہیں کہ  مجھے علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیج دوں جس پر مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا ؟ (وہ کام یہ تھا) کہ ہر اس تصویر کو مٹا دوں اور قبر کو ہموار کر دوں جو ابھری ہوئی ہو۔ (مسلم)
عن حفصہ رضی اللہ عنھا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  قالت  قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم  من اتیٰ عرافا  فسالہ عن شی لا یقبل صلاتہ اربعین یوما (مسلم)
حفصہ رضی  اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی شخص (دست شناس، مستقبل کا حال بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے  اسکی چالیس دن تک نماز مقبول نہیں۔ (مسلم)

 عن عبد اللہ بن مسعود عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قال الطیرۃ شرک  الطیرۃ شرک الطیرۃ شرک  (ابو داود)
عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شگون لینا شرک ہے۔ شگون لینا شرک ہے۔ شگون لینا شرک ہے ۔

عن انس رضی اللہ عنہ  قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  لیسال احدکم ربہ حاجتہ کلھا حتیٰ یسال الملح و حتیٰ یسلہ شسع نعلہ اذا انقطع (ترمذی)
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک اپنی ہر حاجت کے لیئے اللہ سے ہی سوال کرے چاہے نمک ہی کیوں نہ ہو اور چاہے اسکے جوتے کا تسمہ ہی کیوں نہ ہو (جب وہ ٹوٹ جائے)۔

عن ابن مسعود ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  قال کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزروھا  فانھا تزھد فی الد نیا وتذکر الاخرۃ (ابن ماجہ)
ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن (اب) قبروں کی زیارت کیا کرو کہ یہ دنیا میں تقویٰ کی زندگی گزارنے اور آخرت کو یاد رکھنے کا باعث ہے۔
 

 

No comments:

Post a Comment