غزل

 جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے

تو بھی مری مشکل ہے مرا حل تو نہیں ہے


منزل ہو، اجالے ہوں، بہاریں ہوں کہ ہو تم

یاں کوئی کسی کا بھی مسلسل تو نہیں ہے


خود تیری نظر سے بھی تجھے دیکھا ہے دنیا

تصویر کا وہ رخ بھی مکمل تو نہیں ہے


کرتا ہوں رفو روز گریبان میں اپنا

ہر شخص ترے شہر کا پاگل تو نہیں ہے


ہر روز جھڑی لگتی ہے موسم ہو کوئی بھی

ساون کا مری آنکھ یہ بادل تو نہیں ہے


دل محفلِ یاراں میں بھی دھڑکے نہ مرا اب

اس جا بھی وہی دھڑکا یہ مقتل تو نہیں ہے


اک عمر دلاسہ تھا کہ آنی ہے کوئی کل

آئی ہے تو خدشہ ہے یہ وہ کل تو نہیں ہے


بستی نے مجھے ایسا ڈرایا ہے کہ ڈر ہے 

اب پھر سے ٹھکانہ مرا جنگل تو نہیں ہے


جاتے ہیں جہاں سے تو سکوں اتنا ہے ابرک

بن میرے کوئی سانس معطل تو نہیں ہے


اتباف ابرک


ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے​

اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے​

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہیں لاشوں کی طرح​

اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے​

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے​

اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے​

جس کی گردن میں ہے پھندا، وہی انسان بڑا​

سولیوں سے یہاں پیمائشِ قد ہوتی ہے​

شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس​

بولتا جہل ہے، بدنام خرد ہوتی ہے​

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن​

ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے


مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment