خلافت راشدہ کی اہم خصوصیات (علوم و فنون اور اصلاحات)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے لبریز ہے، خصوصاً انہوں نے سوا دو برس کی قلیل مدت خلاف میں اپنے مساعی جمیلہ کے جو لازوال نقش و نگار چھوڑے، قیامت تک محو نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرم ﷺ کے بعدایک پھر ضلالت و گمراہی کا گہوارہ بننے والی سرزمینِ عرب کو تعلیماتِ نبوی ﷺ سے روشناس کرانے میں جن عظیم ہستیوں کا کردار تھا ان کے سرخیل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
جب ایک جانب مدعیان نبوت کی جماعتیں شورش برپا کر رہی تھیں تو دوسری جانب مانعینِ زکوٰۃ کا ٹولہ تعلیماتِ نبوی کو مسخ کرنے کی کوشش میں مگن تھا۔ لیکن جانشینِ رسول اللہ ﷺ نے اپنی روشن ضمیری اور غیر معمولی استقلال کے باعث نہ صرف اس کو گُل ہونے سے محفوظ رکھا بلکہ پھر اسی مشعلِ ہدایت سے تمام عرب کو منور کردیا۔ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کے بعد اسلام کو جس نے دوبارہ زندہ کیا اور دنیائے اسلام پر سب سے زیادہ احسان جس کا ہے وہ یہی ذاتِ گرامی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم کے عہد میں بڑے بڑے کام انجام پائے، مہمات امور کا فیصلہ ہوا، یہاں تک کہ روم اور ایران کے دفتر الٹ دیئے گئے، تاہم اس کی داغ بیل کس نے ڈالی؟ ملک میں الوالعزمانہ روح کب پیدا ہوئی؟خلافتِ الٰہیہ کی ترتیب و تنظیم کا سنگِ بنیاد کس نے رکھا اور سب سے زیادہ یہ خود اسلام کی شمع کو گل ہونے سے کس نے بچایا؟ یقینا ان تمام سوالوں کے جواب میں صرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کا نام لیا جاسکتا ہے اور در اصل وہی اس کے مستحق بھی ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا نظامِ خلافت
اسلام میں خلافت یا جمہوری حکومت کی بنیاد سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ڈالی، چنانچہ خود ان کا انتخاب جمہور کے انتخاب سے ہوا تھا اور عملاً جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے، سب کبار صحابہ رائے و مشورہ کی حیثیت سے شریک تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صاحب رائےوتجربہ کار صحابہ کو بھی دارالخلافت سے جدا نہ ہونے دیا۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی مہم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خود رسول اکرم ﷺ نے نامزد کیا تھا، لیکن انہوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو راضی کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو رائے و مشورہ میں معاونت کے لئے مدینہ چھوڑ جائیں۔(طبقات ابن سعد، حصہ مغازی)۔ شام پر لشکر کشی کا خیال آیا تو پہلے اس کو صحابہ کی جماعت میں مشورہ کے لئے پیش کیا، ان لوگوں کو ایسے اہم اور خطرناک کام کو چھوڑنے میں پس و پیش تھا، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے موافق رائے دی۔(یعقوبی جلد۲،ص۱۴۹) اور پھر اسی پر اتفاق ہوا۔ اور اسی طرح منکرینِ زکوٰۃ کے مقابلہ میں جہاد، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے استخلاف اور تمام دوسرے اہم معاملات میں اہل الرائے صحابہ کی رائے دریافت کرلی گئی تھی۔ ابن سعد میں مذکور یہ تاریخی حقیقت کچھ اس طرح ہے،
’’جب کوئی امر پیش آتا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اہل الرائے و فقہائے صحابہ سے مشورہ لیتے تھے، اور مہاجرین و انصار میں سے چند ممتاز لوگ یعنی عمر، عثمان، علی، عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، اُبی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو بلاتے تھے، یہ سب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں فتوے بھی دیتے تھے‘‘۔(طبقات ابن سعد، جز۲، ص۱۰۹)
نظام مملکت
نوعیت حکومت کے بعد سب سے ضروری چیز ملک کے نظم و نسق کو بہترین اصول پر قائم کرنا، عہدوں کی تقسیم اور عہدیداروں کا صحیح انتخاب ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلطنت کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کردیا تھا، چنانچہ مدینہ، مکہ ، طائف، صنعاء، نجران، حضرموت، بحرین، دومۃ الجندل علیحدہ علیحدہ صوبے تھے۔(تاریخ طبری ص۲۱۳۶)۔ ہر صوبہ میں ایک عامل مقرر کیا تھا جو ہر قسم کے فرائض انجام دیتا تھا، البتہ خاص دارالخلافہ میں تقریباً اکثر محکموں کے الگ الگ عہدہ دار مقرر کئے گئے تھے، مثلاً سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری سے پہلے افسر مال تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قاضی، سیدنا عثمان و زید بن ثابت رضی اللہ عنہما دربارِ خلافت کے کاتب تھے۔(تاریخ طبری ص۲۱۳۵)۔ عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں سیدنا ابوبکر رضی الل عنہ نے ہمیشہ ان لوگوں کو ترجیح دی جو عہدِ نبوی میں عامل یا عہدہ دار رہ چکے تھے، اور ان سے انہی مقامات میں کام لیا ، جہاں وہ پہلے کام کرچکے تھے، مثلاً عہدِ نبوی ﷺ میں مکہ پر عتاب بن اسید، طائف پر عثمان بن ابی العاص، صنعاء پر مہاجر بن امیہ، حضرت موت پر زیاد بن لبید اور بحرین پر علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہم مامور تھے۔ اس لئے خلیفہ اول نے بھی ان مقامات پر ان ہی لوگوں کو برقرار رکھا۔(تاریخ طبری۲۰۸۳)۔ آپ رضی اللہ عنہ جب کسی کو ذمہ داری یا عہدہ پر مامور فرماتے تو عموماً بلا کر اس کے فرائض کی تشریح فرماتے اور نہایت موثر الفاظ میں سلامت روی و تقویٰ کی نصیحت فرماتے۔ چنانچہ عمرو بن العاص اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہما کو قبیلہ قضاعہ پر وصولِ صدقہ کے لئے بھیجا تو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی،
’’خلوت و جلوت میں خوفِ الٰہی رکھو، جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے ایسی سبیل اور اس کے رزق کا ایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے جو کسی کے گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، وہ اس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ اور اس کا اجر دو بالا کردیتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خیرخواہی بہترین تقویٰ ہے، تم اللہ کی ایک ایسی راہ پر ہو جس میں افراط و تفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں جس میں مذہب کا استحکام اور خلافت کی حفاظت مضمر ہے۔ اس لئے سستی تغافل کو راہ نہ دینا‘‘۔ (مسندِ احمد جلد ۱ ص۶)
تعزیر و حدود
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ذاتی طور پر مجرموں کے ساتھ نہایت ہمدردانہ برتاؤ کرتے تھے، چنانچہ عہدِ نبوت میں قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے ان کے سامنے بدکاری کا اعتراف کیا، تو بولے تم نے میرے سوا کسی اور سے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا اللہ سے توبہ کرو، اور اس راز کو پوشیدہ رکھو، اللہ بھی اس کو چھپائے گا، کیونکہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، لیکن اس شخص سے رہا نہ گیا اور وہ بارگاہِ رسالت میں آکر خود متواتر چار بار اقرارِ جرم کیا اور بخوشی سنگسار ہوا۔ (ابوداود، کتاب الحدود)
لیکن سیاسی حقیقت سے خلیفہ وقت کا سب سے پہلا فرض قوم کی اخلاقی نگرانی و رعایا کے جان و مال کی حفاظت ہے اور اس حیثیت سے اگرچہ انہوں نے پولیس و احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں کیا بلکہ رسول اکرﷺ کے عہد مبارک میں جو حالت تھی وہی قائم رکھی، البتہ رضاکار اس قدر اضافہ کیا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو پہرہ داری کی خدمات پر مامور فرمایا بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں، مثلاً شراب کی حد عہدِ رسالت میں مختلف تھا، لیکن آپ نے اپنے دور میں شرابی کے لئے چالیس دُرے کی سزا لازمی کردی،(مسند احمد)
مالیات کا نظام
عہدِ نبوی ﷺ میں بیت المال کا کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا بلکہ مختلف ذرائع سے جو رقم آتی تھی اسی وقت تقسیم کردی جاتی تھی، چنانچہ آپ کے دور میں بھی یہی انتظام قائم رہا، چنانچہ ہرسال ہر ایک آزاد، غلام،مرد ، عورت اور ادنیٰ و اعلیٰ کو بلاتفریق دس دس درہم عطا کئے، دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو بیس بیس مرحمت فرمائے۔ (طبقات ابن سعد ج۳، ص۱۵۱)۔ اخیر عہدِ حکومت میں ایک بیت المال بھی تعمیر کرایا لیکن اس میں کبھی کسی بڑی رقم کے جمع کا موقع نہ آیا، اسی لئے اس کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا۔
دفاعی نظام
عہدِ نبوی ﷺ کی طرح آپ کی خلافت میں بھی فوج کا باقاعدہ محکمہ نہیں تھا، البتہ جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستوں میں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر فرماتے، چنانچہ شام کی طرف جو فوج روانہ ہوئی، اس میں اسی طریقہ پر عمل کیا گیا تھا، کہ قومی حیثیت سے تمام قبائل کے افسر اور ان کے جھنڈے الگ الگ تھے، امیر الامراء، کمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس عہدہ پر مامور ہوئے تھے۔(فتح البلدان ص ۱۱۵)
دستہ بندی کا فائدہ یہ ہوا کہ مجاہدینِ اسلام کو رومیوں کی باقاعدہ فوج کے مقابلہ میں اس سے بڑی مدد ملی، چنانچہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تعبیہ کا طریقہ ایجاد کیا اور میدانِ جنگ میں ہر دستہ کی جگہ اور اس کا کام متعین کردیا۔ اسی طرح حالت جنگ میں جو کسی ترتیب و نظام کے نہ ہونے سے فوج میں ابتری پھیل جاتی تھی، اس کا سد باب ہوگیا۔ (تاریخ طبری)۔ اسکے علاوہ فوجی چھاونیوں کا قیام، فوجیوں کی اخلاقی تربیت کے لئے بنفس نفیس فوجیوں کی صفوں میں چکر لگاتے، کسی میں اخلافی کمزوری نظر آتی تو اس کی اصلاح فرماتے، فوج کو خطاب میں کئی تقاریر تاریخ کے سنہرے اوراق میں موجود ہیں۔چنانچہ شام پر فوج کشی سے پہلے سپہ سالار سے فرمایا،
تم ایک ایسی قوم کو پاؤگے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لئے وقف کردیا ہے، ان کو چھوڑدینا، میں تمہیں دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھلدار درخت نہ کاٹنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، نخلستان نہ جلانا، مالِ غنیمت میں غبن نہ کرنا، اور بزدل نہ ہوجانا۔(تاریخ الخلفا ص۹۶)
بدعات کا سدِ باب
تمام مذاہب کے مسخ ہوجانے کی اصل وجہ وہ بدعات ہیں جو رفتہ رفتہ جز و مذہب ہوکراس کی اصلی صورت اس طرح بدل دیتے ہیں کہ بانیان مذہب کی صحیح تعلیم و متبعین کی جدت طرازیوں میں امتیاز و تفریق دشوار ہوجاتی ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بدعات بہت کم پیدا ہوئیں، تاہم جب کبھی کسی بدعت کا ظہور ہوا رتو انہوں نے اس کو مٹادیا ایک بار حج کے موقع پر قبیلہ احمس کی عورت کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ گفتگو نہیں کرتی، آپ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ اس نے خاموش حج کا ارادہ کیا ہے یہ سن کو آپ نے فرمایا ، یہ جاہلیت کا طریق ہے، اسلام میں جائز نہیں، تم اس سے باز آجاؤ اور بات چیت کرو، اس عورت نے کہا کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا ابوبکر(رضی اللہ عنہ)(بخاری، جلد ۱ ص۵۴۱)
جمع و ترتیب قرآن
مدعیانِ نبوت و مرتدین اسلام کے مقابلہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوئے، خصوصاً یمامہ کی خونریز جنگ میں اس قدر صحاب کرام شہید ہوئےکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن مجید کا اکثر حصہ ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے انہوں نے خلیفہ اول سے قرآن مجید کے جمع و ترتیب کی سفارش کی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کام اچھا ہے اور ان کے بار بار کے اصرار سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو عہد نبوت میں کاتب وحی تھے۔ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیا۔ پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا لیکن پھر اس کی مصلحت سمجھ میں آگئی اور نہایت کوشش و احتیاط کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت
میں مدون کیا۔ (بخاری، جلد۲، ص۴۵)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے قول یتلو صحفا مطہرۃ ۔۔۔ میں بیان فرمایا ہے کہ قرآن صحیفوں میں جمع ہے۔ قرآن مجید صحیفوں میں لکھا ہوا ضرور تھا، لیکن متفرق تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ جمع کردیا۔ پھر ان کے بعد محفوظ رہا۔ یہاں تک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے متعدد نسخے نقل کراکے دوسرے شہروں میں روانہ کردیئے۔(فتح الباری ص۱۰)
اس تشریح سے صاف ظاہر ہوگیا کہ آپ کے حکم سے سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مدون کردیا تھا۔
حدیث کے معاملے میں بھی خاص احتیاط فرماتےاور صحتِ حدیث پر انتہائی توجہ دیتے تھے، چنانچہ ایک بار دادی کی وراثت کا مسئلہ زیرِ غور آیا، چونکہ قرآن مجید میں اس کے متعلق وضاحت نہیں اس لئے سنتِ رسول ﷺ کی طرزِ عمل دریافت کرنا پڑا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ رسول اکرم ﷺ دادی کو چھٹا حصہ دیتے تھے احتیاطاً پوچھا کہ کوئی گواہی پیش کرسکتا ہے؟ سیدنا محمد بن مسیلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اس کی تصدیق کی تو اسی وقت حکم نافذ کردیا۔(تذکرۃ الحفاظ، جلد ۱، ص ۳)
دعوت و تبلیغ
نائب رسول رضی اللہ عنہ کا سب سے اہم فرض دین متعین کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کارِ خیر میں شروع سے جو غیر معمولی انہماک تھا۔ خلافت کا بار آیا تو ایک فرض کی حیثیت سے یہ انہماک زیادہ ترقی کرگیا۔ تمام عرب میں پھر نئے سرے سے اسلام کا غلغلہ بلند کردیا، اور رومیوں اور ایرانیوں کے مقابلے میں فوجیں روانہ فرمائیں۔ انہیں ہدایت کردی کہ سب سے پہلے غنیم کو اسلام کی دعوت دیں، نیز قبائل عرب جو ان اطراف میں آباد ہیں، ان میں دعوت کو پھیلائیں، کیونکہ وہ قومی یکجہتی کے باعث زیادہ آسانی کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوسکتے ہیں، چنانچہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مساعی جمیلہ سے بنی وائل کے تمام بت پرست اور عیسائی مسلمان ہوگئے، اسی طرح سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دعوت پر عراق عرب اور حدود شام کے اکثر قبائل نے لبیک کہا۔نیز اس کے علاوہ مختلف قبائل اور لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایفائے عہد
رسول اکرم ﷺ کے قرضوں کا چکانا، وعدوں کو پورا کرنا بھی فرائض خلافت میں داخل تھا، آپ نے اولین فرصت میں اس فرض سے سبکدوشی حاصل کی اور جیسے ہی بحرین کی فتح کے بعد اس کا مال غنیمت پہنچا، اعلانِ عام کرادیا کہ رسالت مآب ﷺ کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو یا کسی سے آپ ﷺ نے کوئی وعدہ فرمایا ہو تو میرے پاس آئے، اس اعلان پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ ان کو تین دفعہ ہاتھوں سے بھر بھر کر دینے کا وعدہ فرمایا تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اسی طرح تین دفعہ دونوں ہاتھوں سے عطا فرمایا۔(بخاری) اسی طرح ابوبشیرمازنی رضی اللہ عنہ کو ان کے بیان پر چودہ سو درہم مرحمت فرمائے۔(طبقات ابن سعد)
اہل بیت کا معاملہ
باغِ فدک اور مسئلہ خمس کے تنازعات نے گو رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں میں کسی قدر غلط فہمی پھیلادی تھی، خصوصاً سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس کا رنج تھا، تاہم خلیفہ اول نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف و محبت کا سلوک قائم رکھا اور وفات کے وقت سیدہ جنت سے عفو خواہ ہوکر ان کا آئینہ دل صاف کردیا۔(طبقات ابن سعد)
رسول اکرم ﷺ نے جن لوگوں کے لئے وصیت فرمائی تھی یا جن کے حال پر آپ ﷺ کا خاص لطف و کرم رہتا تھا، خلیفہ اول نے ہمیشہ ان کی تعظیم و توقیر اور رسول اللہ ﷺ کی وصیت کا خیال رکھا، آپ ﷺ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا خیال رکھتے تھے، چنانچہ خلیفہ اول نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا۔
ذمیوں کے حقوق
عہدِ نبوت میں جن غیر مذاہب کے پیروکاروں کو اسلامی ممالک محروسہ میں پناہ دی گئی تھی اور عہد ناموں کے ذریعے سے ان کے حقوق متعین کر دیئے گئے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف ان حقوق کو قائم رکھا بلکہ اپنے مہر دستخط سے پھر اس کی توثیق فرمائی۔ اس طرح خود ان کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے، وہاں ذمی رعایا کو تقریباً وہی حقوق دیئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے، چنانچہ اہل حیرہ سے جو معاہدہ ہوا اس کے الفاظ یہ تھے،’’ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہ کئے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا قصر گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں، ناقوس کی ممانعت نہ ہوگی اور تہوار کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے نہ روکے جائیں گے‘‘۔(کتاب الخراج)
خلیفہ اول کے عہد میں جزیہ یا ٹیکس کی شرح نہایت آسان تھی اور ان ہی لوگوں پر مقرر کرنے کا حکم تھا جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہوں، چنانچہ حیرہ کے سات ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور باقی پر صرف دس دس درہم سالانہ مقرر کئے گئے تھے، معاہدوں میں یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ذمی بوڑھا، اپاہج اور مفلس ہوجائے گا تو وہ جزیہ سے بری کر دیا جائے گا۔ نیز بیت المال اس کا کفیل ہوگا۔ (کتاب الخراج ص۷۲)
خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
آپ کے ساڑھے دس سالہ دورِ خلافت میں اسلامی ریاست ایران، بلوچستان، خراساں (سمرقند بخارا وغیرہ) سے طرابلس الغرب (تقرباً 22لاکھ 51ہزار 30مربع میل) تک پھیل گئی جو تاریخ انسانی میں اتنی مدت میں ریکارڈ ہے۔ جس میں دمشق، رومیوں کا وسط ایشیاء میں دارالخلافۃ حمص، فلسطین، مصر، طرابلس الغرب، اردن، ایران (جو کہ اس وقت عراق، بلوچستان، کابل، ماورائے نہر خراساں اور بے شمارعلاقوں پر مشتمل تھا) اور 1000سے زائد بلاد فتح فرمائے اور پھر زمین پر عدل وانصاف اور راستی دیانت داری کی اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں۔ ایک طرف مخلوقِ خد ا کے دلوں میں حق پرستی اور پاکبازی پیداہوئی تو دوسری طرف ایسا فلاحی نظام قائم کیا کہ ہر شخص کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کیں حتیٰ کہ جانوروں کے تحفظ کیلئے قوانین وضع فرمائے اور فرمایا اگر نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہرے گا ۔
نظام حکومت
’’وَ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَہھمْ‘‘ (سورہ شوریٰ: ۳۸) کے تحت اہم امور میں مشاورت ہوتی تھی اور حتمی فیصلے امیر المؤمنین کرتے تھے۔ حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ کو جنرل سیکرٹری ومحافظ ِ بیت المال مقرر کیا اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ کو محتسب مقرر کیا۔ احتساب کا سخت ترین نظام تھا۔ بڑی سے بڑی شخصیت قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر احتساب سے بچ نہ سکتی تھی۔ حج کے موقع پر تمام صوبائی گورنروں کی حج میں حاضری لازم تھی۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ہر سال خود بھی حج میں شریک ہوتے۔ ہر علاقے کے لوگوں کو شکایات کا موقع دیا جاتا اور گورنروں کے خلاف فوری اقدمات ہوتے۔ جلیل القدر صحابی حضرت عمرو بن العاص گورنر مصر کے بارے میں ایک شخص نے شکایت کی، گورنر نے مجھے کوڑوں کی نا حق سزا دلوائی ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حج کے اجتماع میں حضرت عمر وبن العاص کو کوڑے مارنے کا حکم فرمایا جس کے بعد اس شخص نے قصاص کا حق معاف کرنے کا اعلان کیا۔
امیر المؤمنین اور تمام گورنروں کیلئے لازم تھا کہ ایک عام آدمی کی بود وباش اختیار کریں، ترکی مہنگاگھوڑا استعمال نہ کریں، باریک کپڑے نہ پہنیں، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائیں، جائیداد میں اضافہ نہ کریں، اپنے دروازے عوام پر بند نہ کریں، دروازوں پر محافظ مقرر نہ کریں۔ امیر المؤمنین خود بیت المال سے سال میں کپڑوں کے دو جوڑے اور روزانہ ایک مزدور کا معمولی وظیفہ وصول کرتے۔ آپ کی پہنی ہوئی قمیص کے کندوں پر ہمیشہ پیوند لگے نظر آتے۔ ایک مرتبہ خطبہ جمعہ میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی کہ کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا دھو کر سوکھنے کے انتظار میں تاخیر ہو گئی ہے۔ کفایت ِشعاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے بچے ہوئے ٹکڑوں سے ناشتہ فرماتے، ایک بار عراق سے معزز مہمان آئے تو انہیں بھی رات کے بچے ہوئے ٹکڑے ناشتہ میں پیش کیے تو مہمانوں نے ایک لقمہ کھانے کے بعد کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا۔ صحابہ کرام نے نامناسب سمجھاتوحضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے امیر المؤمنین سے بات کرنے کے لئے کہا، حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے کہا اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بات کریں۔ صحابہ نے حضرت اُم المؤمنین رضی اﷲ عنہا سے بات کی تو حضرت اُم المومنین رضی اﷲ عنہ نے امیر المؤمنین سے صحابہ کی شکایت کا ذکر کیاتو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ ﷺ کی سادگی وکفایت اشعاری اور فقر وفاقہ کا ذکر کیا اور زار وقطار رونے لگے اور عرض کیا، اے ام المؤمنین! رسول اﷲ ﷺ کے اسوہ پرعمل ہی بہتر ہے۔
گورنر مصر حضرت عیاض بن غنیم رضی اﷲ عنہ نے پتلا لباس پہنا تو انہیں معزول کر دیا اور کہا بکریاں لے جاؤ اور بکریاں چرایا کرو۔ فاتح ایران جلیل القدرصحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاض رضی اﷲ عنہ نے اپنے دفتر کے باہر پہرہ لگایا تو انہیں معزول کردیا۔ آپ کے سالے قدامہ نے شراب نوشی کی تو 80کوڑے حدِ شراب قائم کی۔ آزادی تنقید کی عام اجازت فرمائی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے دوران خطبہ سوال کیا کہ آپ نے جو چادریں تقسیم کی ہیں آپ نے ایک سے زیادہ چادر سے اپنا لباس تیار کر وایا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ میرے بیٹے عبد اﷲ بن عمر نے اپنے حصے کی چادر مجھے دے دی تھی میں نے کوئی خیانت نہیں کی۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا، اگر میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام سے ہٹوں تو کیا کرو گے؟ ایک نوجوان نے تلوار سونتی اور کہا، ہم آپ کی گردن کاٹ دیں گے تو آپ رضی اﷲ عنہ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا، جب تک ایسے نوجوان موجود ہیں کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ نیز فرمایا: ’’اَحَبُّ النَّاسِ اِلیَّ مَنْ رَفَعَ اِلیَّ عُیُوبِیْ‘‘ ترجمہ: تمام لوگوں سے مجھے سب سے پیارا وہ ہے جو میرے عیوب ونقائص میرے سامنے رکھے۔
دورِ فاروقی کی اصلاحات
آپ نے فوج، ڈاک، بیت المال، پیمائش، پولیس اور دیگر محکمے قائم کیے، منزلیں اور سرائیں قائم کرائیں۔ 4000مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے 900جامع تھیں، سن ہجری قائم فرمایا، نمازِ تراویح با جماعت ختم قرآن کے ساتھ شروع فرمائی، مساجد روشنی کا انتظام فرمایا، شہروں میں پہرے مقرر کیے، تاجر کیلئے تعلیم لازم فرمائی، مدارس قائم فرمائے، اساتذہ کے وظائف مقرر فرمائے۔ جب مدارس کی تعلیمی رپورٹ سے پتہ چلا کہ حضرت ابوالدرداء کے مدرسہ جامع مسجد دمشق سے 10 ہزار سے زیادہ حفاظ تیار ہوئے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ اہل کتاب کی عورتوں سے سیاسی طور پر نکاح کرنے سے منع فرمادیا۔ مؤلفۃ القلوب کی بجائے مسلمانوں کو زکوۃ دینے کا حکم فرمایا۔ مسجد نبوی کی توسیع فرمائی اور سادگی برقرار رکھی۔ مسجد حرام کے ارد گرد پہلی بار چار دیواری قائم فرمائی۔ آپ نے یہود کو حجاز مقدس سے نکال دیا اور تمام غیر مسلموں کو گھروں اور ان کی عبادت گاہوں میں مذہبی آزادی دی لیکن پبلک مقامات پر انہیں تبلیغ کا حق نہ دیا۔ آپ نے صاحب احداث کے نام سے محکمہ پولیس بھی قائم کیا جس کی ذمہ داری عوام اور حکومتی اثاثوں کی حفاظت، امن وامان کا قیام اور تجاوزات پر کنٹرول کرنا ہوتا تھا۔ آپ نے دریائے نیل سے بحیرہ قلزم تک 69میل لمبی نہر، نہر امیر المؤمنین کے نام سے کھدوائی جس میں کشتیاں چلتی تھیں اسی طرح متعدد دیگر نہریں بھی کھدوائیں جن سے ایک نہر ’’نہر ابی موسیٰ اشعری‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
صوبائی حکومتیں
آپ نے مکہ مکرمہ ومدینہ منور ہ، شام، جزیرہ، مصر، فلسطین، کوفہ، بصرہ، خراساں، آزربائیجان، فارس اور دیگر مقامات پر صوبائی حکومتیں قائم فرمائیں ہر شہر میں ایک قاضی، ایک معلم، ایک خازن اور ایک حاکم مقرر کرنے کی ہدایات فرمائی گورنروں سے دروازے عوام پر بند نہ کرنے اور انتہائی سادہ طرز زندگی
گزارنے اورجائید اد میں اضافہ نہ کرنے کا عہد لیتے اور انتہائی سخت احتساب فرماتے۔
دورفاروقی میں دفاعی نظام
فوج کا نظام اعشاری تھا ہر دس پر امیر العشر، ایک سوپر قائد اور ایک ہزار پر امیر مقرر تھا۔ فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا بصرہ، کوفہ، اردن، طرابلس الغرب میں فوجی چھاؤنیاں قائم کیں جہاں خوراک کا سٹاک ہوتا، گھوڑے اونٹ اور اسلحہ کے ذخائر ہوتے اور گھوڑوں اور اونٹوں پر ’’جیش فی سبیل اللّٰہ‘‘ داغاجاتا۔ آپ نے مجاہدین کے وظائف مقرر فرمائے اور اس موقع پر اصحابِ بدر کا وظیفہ 5000اور اُن کی اولاد کا 2000مقرر کیا لیکن امام حسن وامام حسین رضی اﷲ عنہما اور حِبِّ رسول حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کا وظیفہ اصحاب بدر کے برابر رکھا اور اپنے بیٹے عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا وظیفہ امام حسن وامام حسین رضی اﷲ عنہما اور حِبِّ رسول حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ سے کم 2000روپے رکھا۔ فوجی بھرتی کیلئے زیادہ تر مدینہ منورہ کو مرکز بنایا گیا اور ہر سال 30ہزار فوجی بھرتی کیے جاتے اگر دشمن کی تعداد 2لاکھ ہوتی تو چالیس ہزار مجاہدین سے زائد مقابلہ میں نہ بھیجتے۔
امیر المؤمنین خود پوری فوج کے کمانڈر انچیف تھے اور تمام بڑی جنگوں میں جنگ کا نقشہ خود بناتے اور اسکے ساتھ ہدایات بھیجتے رہتے۔ آپ نے سپر طاقت ایران سے جنگ قادسیہ کے موقع پر خود جنگ میں قیادت کا اظہار کیا لیکن حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سمیت اکابر صحابہ نے آپ کو مدینہ منورہ سے نہ جانے دیا تو آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو سپہ سالار، حضرت زبیر کو میمنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف کو میسرہ اور حضرت طلحہ کو مقدمۃ الجیش پر امیر مقرر کیا اور میدان ِجنگ کا نقشہ خود تیار کیا۔
خلافت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ
وصال نبوت کے بعد حضرات شیخین کے معاون و مشیر رہے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی منتخب کردہ چھ رکنی کمیٹی نے آپ کو متفقہ طور پر خلیفہ مقرر کیا ،آپ کے بارہ سالہ مثالی دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع تر ہو کر آذربائیجان ،آرمینیا ،طرابلس ،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے ۔28ھ میں بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص ،30ھ میں طبرستان ،33ھ میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے ،
صوبائی نظام
نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلے کام صوبہ جات اوراضلاع کی مناسب تقسیم ہے،حضرت عمرؓ نے ملک شام کو تین صوبوں میں تقسیم کیا تھا، یعنی دمشق، اردن، اورفلسطین علیحدہ صوبے قرار پائے تھے، حضرت عثمان ؓ نے سب کو ایک والی کے ماتحت کرکے ایک صوبہ بنادیا،جو نہایت سود مند ثابت ہوا کیونکہ جب والی خوش تدبیر اورذی ہوش ہو تو ملک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دینے سے اس کا ایک ہی مرکز سے وابستہ رہنا زیادہ مفید ہوتا ہے،اسی کا نتیجہ تھا کہ آخری عہد میں جب تمام ملک سازش اور فتنہ پردازی کا جولان گاہ بنا تھا اس وقت وہ تمام اضلاع جو شام سے ملحق کردئے گئے تھے اس سے پاک وصاف رہے، دوسرے صوبہ جات بعینہٖ باقی رکھے گئے البتہ جدید مفتوحہ ممالک یعنی طرابلس ،قبرص،آرمینیہ اورطبرستان علیحدہ علیحدہ صوبے قرار پائے۔
اختیارات کی تقسیم
حضرت عثمان ؓ نے افسر فوج کا ایک جدید عہدہ ایجاد کیا اس سے پہلے والی یعنی حاکم صوبہ انتظام ملک کے ساتھ فوج کی افسری بھی کرتا تھا، چنانچہ یعلی بن منبہ صنعا کے عامل ہوئے تو عبداللہ بن ربیعہ فوج کی افسری پر مامور ہوئے،اسی طرح عمروبن العاص ؓ معزولی سے پہلے والی مصر تھے اورمصری فوج کی باگ عبداللہ بن ابی سرح کے ہاتھ میں تھی۔
حکام کی نگرانی
خلیفہ وقت کا سب سے اہم فرض حکام اور عمال کی نگرانی ہے حضرت عثمان ؓ اگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے،بات بات پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ذاتی حیثیت سے تحمل، بردباری، تساہل اورچشم پوشی آپ کا شیوہ تھا؛لیکن ملکی معاملات میں انہوں نے تشدد احتساب اورنکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا، سعید بن ابی وقاص ؓ نے بیت المال سے ایک بیش قراررقم لی جس کو ادا نہ کرسکے، حضرت عثمان ؓ نے سختی سے باز پرس کی اورمعزول کردیا، ولید بن عقبہ نے بادہ نوشی کی،معزول کرکے علانیہ حد جاری کی، ابوموسی اشعری ؓ نے امیرانہ زندگی اختیار کی تو انہیں بھی ذمہ داری کے عہدہ سے سبکدوش کردیا، اسی طرح عمروبن العاص والی مصر وہاں کے خراج میں اضافہ نہ کرسکے تو ان کو علیحدہ کردیا۔نگرانی کا یہ عام طریقہ تھا کہ دریافتِ حال کے لئے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اوررعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے، یہ تینوں بزرگ صحابہ ؓ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے؛چنانچہ ۳۵ ھ میں ملک کی عام حالت دریافت کرنے کے لئے جو روانہ کئے گئے تھے ان میں یہی حضرات تھے۔(طبری ص ۲۹۴۳)
ملک کی حالت سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے آپ کا یہ معمول تھا کہ جمعہ کے دن منبر پر تشریف لاتے تو خطبہ شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے اور نہایت غور سے سنتے،( مسند ابن حنبل ج ۱ : ۷۳)تمام ملک میں اعلان عام تھا کہ جس کسی کو کسی والی سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے، اس موقع پر تمام عمال لازمی طورپر طلب کئے جاتے تھے اس لئے سب کےسامنے شکایتوں کی تحقیقات کرکے تدارک فرماتے۔( طبری :۲۹۴۴)
مملکت کا نظام
فاروق اعظم ؓ نے ملکی نظم ونسق کا جودستورالعمل مرتب کیا تھا حضرت عثمان ؓ نے اس کو بعینہ باقی رکھا اورمختلف شعبوں کے جس قدر محکمے قائم ہوچکے تھے، ان کو منضبط کرکے ترقی دی،یہ اسی نظم ونسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا، حضرت عمر ؓ کے عہد میں مصر کا خراج ۲۰ لاکھ دینار تھا ،لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار ۴۰ لاکھ تک پہنچ گئی۔(فتوح البلدان بلاذری:۲۲۳)
بیت المال کا نظام
جدیدی فتوحات کے باعث جب ملکی محاصل میں غیر معمولی ترقی ہوئی تو بیت المال کے مصارف میں بھی
اضافہ ہوا چنانچہ اہل وظائف کے وظیفوں میں ایک ایک سو درہم کا اضافہ ہوا،حضرت عمر ؓ رمضان میں امہات المومنین ؓ کو دو دو درہم اور عوام کو ایک ایک درہم روزانہ بیت المال سے دلاتے تھے،حضرت عثمان ؓ نے اس کے علاوہ لوگوں کا کھانا بھی مقرر کردیا۔
تعمیرات
حکومت کا دائرہ جس قدر وسیع ہوتا گیا، اسی قدر تعمیرات کا کام بھی بڑھتا گیا تمام صوبہ جات میں مختلف دفاتر کے لئے عمارتیں تیار ہوئیں،رفاہِ عام کے لئے سڑک پل اور مسجدیں تعمیر کی گئیں،مسافروں کے لئے مہمان خانے بنائے گئے، پہلے کوفہ میں کوئی مہمان خانہ نہ تھا اس سے مسافروں کو سخت تکلیف ہوتی تھی،حضرت عثمان ؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے عقیل اور ابن ہبار کے مکانات خرید کر ایک نہایت عظیم الشان مہمان خانہ بنوادیا۔ ملکی انتظام اوررعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے ضرورت تھی کہ دارالخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اورآرام دہ بنادیا جائے، چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے مدینہ کے راستہ میں موقع ، موقع سے کوکیاں، سرائیں اورچشمے تیار کرادئیے ، چنانچہ نجد کی راہ میں مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلے پر ایک نہایت نفیس سرائے تعمیر کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ ایک مختصر بازار بھی بسایا گیا،نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا جو بیرالسائب کے نام سے مشہور ہے۔
بند مہزور
خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا جس سے شہر کی آبادی کو سخت نقصان پہنچتا تھا،مسجد نبوی کو اس سے صدمہ پہنچنے کا احتمال تھا اس لئے حضرت عثما ن ؓ نے مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند بندھوایا اورنہر کھود کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑدیا، اس بند کا نام بند مہزور ہے،رفاہ عام کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔(خلاصۃ الوفاء : ۱۲۴)
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر وتوسیع
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر میں حضرت عثمان ذوالنورین کا ہاتھ سب سے زیادہ نمایاں ہے، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کے لئے حضرت عثمان ؓ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش کیا تھا، پھر اپنے عہد میں بڑے اہتمام سے اس کی وسیع اورشاندار عمارت تعمیر کرائی، سب سے اول ۲۴ھ میں اس کا ارادہ کیا ،لیکن مسجد کے گردوپیش جن لوگوں کے مکانات تھے وہ کافی معاوضہ دینے پر بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت کے شرف سے دست کش ہونے کے لئے راضی نہ ہوتے حضرت عثمان ؓ نے ان لوگوں کو راضی کرنے کے لئے مختلف تدبیریں کیں لیکن وہ کسی طرح راضی نہیں ہوئے،یہاں تک کہ پانچ سال اس میں گزر گئے، بالآخر ۲۹ھ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عثمان ؓ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی مؤثر تقریر کی اورنمازیوں کی کثرت اورمسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی، اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات دے دئیے اور آپ نے نہایت اہتمام کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کیا،نگرانی کے لئے تمام عمال طلب کئے اورخود شب وروز مصروف کار رہتے تھے، غرض دس مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد اینٹ ،چونا اورپتھر کی ایک نہایت خوش نما اورمستحکم عمارت تیارہوگئی ،وسعت میں بھی کافی اضافہ ہوگیا، یعنی طول میں پچاس گز کا اضافہ ہوا، البتہ عرض میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا۔( خلاصۃ الوفاء : ۱۲۴)
دفاعی نظام
حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں جس اصول پر فوجی نظام قائم کیا تھا حضرت عثمان ؓ نے اس کو ترقی دی، فوجی خدمات کے صلہ میں جن لوگوں کے وظائف مقرر کئے گئے تھے، حضرت عثمان ؓ نے اس میں سو سو درہم کا اضافہ کیا اورفوجی صیغہ کو انتظامی صیغوں سے الگ کرکے تمام صدر مقامات میں علیحدہ مستقل افسروں کے ماتحت کردیا،اس عہد کے مکمل فوجی نظام کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ امیر معاویہ ؓ کو حدود شام میں رومیوں کے مقابلہ کے لئے فوجی کمک کی ضرورت ہوئی تو ایران اورآرمینیہ کی فوجیں نہایت عجلت کے سات بروقت پہنچ گئیں، اسی طرح جب عبداللہ بن ابی سرح ؓ کو طرابلس میں بغاوت فرد کرنے کے لئے فوجی طاقت کی ضرورت پیش آئی تو شام وعراق کی کمک نے عین وقت پر مساعدت کی، افریقہ کی فتح میں جب مصری فوج ناکام ثابت ہوئی تو مدینہ سے کمک روانہ کی گئی جس کے افسر حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ تھے، انہوں نے معرکہ کو کامیابی کے ساتھ ختم کیا۔ عہد فاروقی میں جو مقامات فوجی مرکز قرار پائے تھے، عہد عثمانی میں ان کے علاوہ طرابلس ،قبرص، طبرستان اور آرمینیہ میں بھی فوجی مرکز قائم کئے گئے اور اضلاع میں چھاؤنیاں قائم کی گئیں جہاں تھوڑی تھوڑی فوج ہمیشہ متعین رہتی تھی۔ تمام ملک میں گھوڑوں اوراونٹوں کی پرورش وپرداخت کے لئے نہایت وسیع چراگاہیں بنوائی گئیں، خود دارالخلافہ کے اطراف ونواح میں متعدد چراگاہیں تھیں، سب سے بڑی چراگاہ مقام ربذہ میں تھی، جو مدینہ سے چار منزل کے فاصلہ پر واقع ہے، یہ چراگاہ دس میل لمبی اوراسی قدر چوڑی تھی، دوسری چراگاہ مقام نقیع میں تھی جو مدینہ سے بیس میل دور ہے، اسی طرح ایک چراگاہ مقام ضربہ میں تھی جو وسعت میں ہرطرف سے چھ چھ میل تھی حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب گھوڑوں اوراونٹوں کی کثرت ہوئی تو ان چراگاہوں کو پہلے سے زیادہ وسیع کیا گیا اورہر چراگاہ کے قریب چشمے تیار کرائے گئے، چنانچہ مقام ضربہ میں بنی صبیہ سے پانی کا ایک چشمہ خرید کر چراگاہ کے لئے مخصوص کردیا گیا، علاوہ اس کے حضرت عثمان ؓ نے خود اپنے اہتمام سے ایک دوسرا چشمہ تیار کرایا اورمنتظمین چراگاہ کے لئے مکانات تعمیر کرائے،عہد عثمانی میں اونٹوں اورگھوڑوں کی جو کثرت تھی،اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراگاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔
امارت بحریہ
اسلام میں بحری جنگ اوربحری فوجی انتظامات کی ابتدا خاص حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت سے ہوئی،اس سے پہلے یہ ایک خطرناک کام سمجھا جاتا تھا مگر افسوس ہے کہ تاریخوں سے اس کے تفصیلی انتظامات کا پتہ نہیں چلتا، صرف اس قدر معلوم ہے کہ امیر معاویہ ؓ کے توجہ دلانے پر بارگاہ خلافت سے ایک جنگی بیڑا تیار کرنے کا حکم ہوا اور عبداللہ بن قیس حارثی اس کے امیر البحرہوئے ؛لیکن اس قدر یقینی ہے کہ اسی زمانہ میں مسلمانوں کی بحری قوت اتنی بڑھ گئی تھی کہ آسانی کے ساتھ قبرص زیر نگیں ہوگیا اور رومیوں کے عظیم الشان جنگی بیڑے کو جس میں پانچ سو جہاز تھے اسلامی بیڑے نے ایسی شکست دی کہ پھر اس نے اسلامی سواحل کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہ کی۔
دینی خدمات
نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اوراس کی اشاعت وتبلیغ ہے، اس لئے حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کو اس فرض کے انجام دینے کا ہر لحظہ خیال رہتا تھا؛چنانچہ جہاد میں جو قیدی گرفتار ہو کر آتے تھے ان کے سامنے خود اسلام کے محاسن بیان کرکے ان کو دین متین کی طرف دعوت دیتے تھے، ایک دفعہ بہت سی رومی لونڈیاں گرفتار ہوکر آئیں، حضرت عثمان ؓ نے خود ان کے پاس جاکر تبلیغ اسلام کا فرض انجام دیا، چنانچہ دوعورتوں نے متاثر ہوکر کلمہ توحید کا اقرار کیا اوردل سے مسلمان ہوئیں۔(ادب المفردباب خفض المراء)
غیر قوموں میں اشاعت اسلام کے بعد سب سے بڑی خدمت خود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم و تلقین ہے،حضرت عثمان ؓ خود بالمشافہ مسائل فقہ بیان کرتے تھے اورعملاً اس کی تعلیم دیتے تھے، ایک دفعہ وضو کرکے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح وضو کرتے دیکھا تھا،( ابوداؤد کتاب الطہارت باب صفۃ وضو النبی صلی اللہ علیہ وسلم )جس مسئلہ میں شبہ ہوتا اس کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہ کرسکتے تو دوسرے صحابہ ؓ سے استفسار فرماتے اورعوام کو بھی ان کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتے تھے، ایک دفعہ سفر حج کے دوران میں ایک شخص نے پرندہ کا گوشت پیش کیا جو شکار کیا گیا تھا، جب آپ کھانے کے لئے بیٹھے تو شبہ ہوا کہ حالت احرام میں اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت علی ؓ بھی ہمسفر تھے ان سے استصواب کیا انہوں نے عدم جواز کا فتویٰ دیا اور حضرت عثمان ؓ نے اسی وقت کھانے سے ہاتھ روک دیا۔
( مستدرک ابن حنبل ج ۱ : ۱۰۰)
مذہبی انتظامات کی طرف پوری توجہ تھی،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کاحال گزرچکا ہے،مدینہ کی آبادی اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ جمعہ کے روز ایک اذان کافی نہیں ہوتی تھی،اس لئے ایک اورمؤذن کا تقرر کیا جو مقام زوراء میں اذان دے کر لوگوں کو نماز کے وقت سے مطلع کرتاتھا،نماز میں صفوں کو برابر اورسیدھی رکھنے کے انتظام پر متعدد اشخاص متعین تھے جو خطبہ ختم ہونے کے ساتھ ہی مستعدی کے ساتھ صفیں برابر کرتے تھے۔( مسند شافعی : ۳۸)
مذہبی خدمات کے سلسلہ میں حضرت عثمان ؓ کا سب سے زیادہ روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف وتحریف سے محفوظ کرنا اوراس کی عام اشاعت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آرمینیہ اورآذربائیجان کی مہم میں شام،مصر، عراق وغیرہ مختلف ملکوں کی فوجیں مجمتع تھیں ، جن میں زیادہ تر نومسلم اورعجمی النسل تھے، جن کی مادری زبان عربی نہ تھی، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ بھی شریک جہاد تھے، انہوں نے دیکھا کہ اختلاف قرأت کا یہ حال ہے کہ اہل شام کی قرأت ،اہل عراق سے بالکل جداگانہ ہے، اسی طرح اہل بصرہ کی قرأت اہل کوفہ سے مختلف ہے اور ہر ایک اپنے ملک کی قرأت صحیح اور دوسری کو غلط سمجھتا ہے،حضرت حذیفہ ؓ کو اس اختلاف سے اس قدر خلجان ہوا کہ جہاد سے واپس ہوئے تو سیدھے بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اور مفصل واقعات عرض کرکے کہا ’’امیرالمومنین!اگر جلد اس کی اصلاح کی فکر نہ ہوئی تو مسلمان عیسائیوں اوررومیوں کی طرح خدا کی کتاب میں شدید اختلاف پیدا کرلیں گے‘‘ حضرت حذیفہ ؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان ؓ کو بھی خیال ہوا اورانہوں نے ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے عہد صدیقی کا مرتب ومدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید بن ثابت ؓ، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن العاص سے اس کی نقلیں کراکے تمام ملک میں اس کی اشاعت کی اور ان تمام مختلف مصاحف کو جنہیں لوگوں نے بطور خود مختلف املاؤں سے لکھا تھا، صفحہ ہستی سے معدوم کردیا۔( بخاری باب جمع القرآن)
نظام خلافت سیدنا علی رضی اللہ عنہ
امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰ نے جس وقت زمام ِخلافت سنبھالی اس وقت امت مسلمہ انتہائی
مشکل اورمصائب وآلام کے برے دور سے گزررہی تھی۔دشمنانِ خلافت کا دارالخلافہ مدینہ منورہ پر قبضہ تھا اورہرطرف دندناتے پھرتے تھے۔خلیفہ وقت سیدناعثمان بن عفان دن دھاڑے اپنے گھر کے اندرشہیدکردیے گئے تھے اورانکے قاتلین پرکسی کازورنہ چلتا تھا۔منصبِ خلافت سنبھالنے کے لیے بڑے بڑے جلیل القدرصحابہ کرام سے درخواستیں کی گئیں لیکن کوئی بھی اس ذمہ داری کواٹھانے کے لیے تیارنہ تھا ان حالات میں سیدناعلی نے مجبورہو کربادل نخواستہ منصب خلافت کوقبول کیااوراس عظیم منصب پرفائزہوتے ہی مشکلات کے دریابہہ نکلے جنہیں آپ اپنی شہادت تک عبورکرتے چلے رہے۔ آپ نے خانہ جنگیوں،شورشوں،بغاوتوں اورسازشوں کے باوجود٤سال٩ماہ تک نظام ِخلافت کوسنبھالااورحتی المقدوراپنی صلاحیتوں کواسلام اوراہل اسلام کی خدمات میں صرف کیا جس کااجمالی خاکہ پیش کیا جاتاہے۔
حکام کی تبدیلیاں
سیدناعلی نے منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد پہلاکام یہ کیاکہ سیاسی نظام میں بہتری کے پیشِ نظرسیدناعثمان کے مقررکردہ گورنروں کومعزول کرکے اپنے معتمدلوگوں کوان کی جگہ گورنرتعینات کیا۔اگرچہ اس کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے اورآپ کواپنے اس اقدام کے نتیجے میں آگے چل کرکئی مشکلات کاسامناکرناپڑا ۔ بہرحال اس طرح آپ نے سیاسی نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی۔دوسرااہم کام یہ کیاکہ دارالخلافہ مدینہ منورہ سے کوفہ منتقل کردیااورخودبھی وہیں مقیم رہے۔حالانکہ کئی صحابہ نے آپ کواس اقدام سے روکاتھا۔ (البدایہ والنھایہ:ج٧ص٢٣٣)
اگرچہ مؤرخین نے دارالخلافہ کی تبدیلی کی خاص وجوہ واسباب بیان نہیں کیے البتہ یہ واضح ہے کہ عراق خصوصاََکوفہ میں آپ کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا گیا لیکن یہ یقینی بات ہے کہ سیدناعلی کے نزدیک اس اقدام کی وجوہ بھی ہوگی۔دارالخلافہ کی تبدیلی کی وجہ سے بھی آپ کومشکلات کا سامناکرنا پڑااوراہل کوفہ نے ہمیشہ آپ کو پریشان کیے رکھا اورباربارغداری وبے وفائی کے مرتکب ہوتے رہے۔سیدناعلی کے پیشِ نظر سیدناعمرالفاروق کاطرزحکومت تھا اورہمیشہ انہی کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے رہے چنانحہ یحیٰ بن آدم لکھتے ہیں کہ سیدناعلی کی سیرت سیدناعمرکی سیرت سے مشابہ تھی۔ (کتاب الخراج :ص٢٤)امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ سیدناعلی کے ایک شاگردعبدخیرفرماتے ہیں کہ ایک موقع پرسیدناعلی نے فرمایاکہ سیدناعمربہترین توفیق دیے گئے تھے اورامورخلافت میں درست فیصلہ کرنے والے تھے اورصحیح معاملہ فہم تھے۔اللہ کی قسم!عمر نے جوکام کیے ہیں میں انہیں تبدیل نہیں کروں گا۔ (التاریخ الکبیر:ج٤ص١٤٥)
کوفہ تشریف لے گئے تواہل کوفہ نے دارالامارت میں قیام کے لیے عرض کیا توفرمایاکہ مجھے دارلامارت میں ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ عمربن الخطاب دارالامارت میں ٹھہرنے کوناپسندکرتے تھے۔، (الاخیارالطول:١٥٦) سیدناعلی ذاتی طورپرسادگی پسنداورزاہدانہ زندگی گزارنے والے تھے اس لیے حکومتی امور کو بھی سادگی سے چلایاکرتے تھے اوراپنے گورنروں کوسادگی کی تعلیم وترغیب دیتے تھے۔ مؤرخین نے دورانِ خلافت آپ کی سادگی کے کئی واقعات نقل کیے ہیں۔خلافت کے زمانے میں بھی آپ سادہ کھاتے اورسادہ پہنتے تھے۔خلیفہ ہونے کے باوجودبیت المال سے بقدرضرورت اوربقدرکفایت انتہائی قلیل وظیفہ لیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جس وقت دنیاسے رخصت ہوئے تواس و قت آپ کے پاس روئی کا ایک جبہ اورایک چادرتھی۔ (کتاب الاحوال لابی عبیدص٢٧٠)
آپ فرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ خلیفہ کے لیے اللہ کے مال(بیت المال)میں سے دوپیالوں کے سوااورکچھ حلال نہیں۔ایک پیالہ جسے وہ اوراس کے اہل وعیال کھائیں اورایک پیالہ جسے وہ مہمان داری کے طورپرلوگوں کے سامنے پیش کرے۔ (مسنداحمد:ج١ص٨٧)سیدناعلی مسلمانوں کے لیے خلیفہ اورامیرالمؤمنین کا وجود ضروری قرار دیتے تھے آپ فرماتے تھے کہ امت کامعاملہ کسی امیر یاخلیفہ کے وجود کے ساتھ ہی درست رہ سکتا ہے۔وہ امیرچاہے جس طرح کا بھی ہو۔ (کنزالعمال حدیث نمبر:٤٣٦٦ ١ )آپ فرماتے تھے کہ تین باتیں ایسی ہیں جومسلمانوں کے امام اورخلیفہ میں پائی جائیں تووہ صیحح معنوں میں اپنی ذمہ داریاںاداکرنے والاامام ہوگا ۔ (١)جب فیصلہ کرے توعدل کرے،(٢)اپنی رعایاسے چھپ کرپردوں میں نہ بیٹھے،(٣)دورونزدیک سب لوگوں پرکتاب اللہ کے احکام کانفاذکرے،۔ (کنزالعمال حدیث نمبر:١٤٣١٥)اسی طرح فرماتے تھے کہ پانچ باتوں کاتعلق مسلمانوں کے امام(خلیفہ)سے ہے۔ (١)نمازجمعہ(٢)نمازعید(٣)صدقات کی وصولی(٤)قاضیوں کی تقرری(٥)قصاص لینا۔(الروض النفیر:ج٤ص١٤٣)
عدلیہ کا نظام
اللہ تعالیٰ نے سیدناعلی کوعلم،ذہانت،فطانت اورفقاہت کے ساتھ ساتھ قضا(فریقین کے درمیان متنازعہ امورمیں عدل پر مبنی فیصلہ کرنا) کی صفت سے خصوصی طورپر نوازاتھاچنانچہ اس کا اعتراف خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی سے اپنی زندگی میں کئی فیصلے کروائے اور ان کی تصدیق وتحسین بھی فرمائی۔بلکہ یمن کاقا ضی مقررکرکے بھیجا تھا۔ (مستدرک حاکم:ج٣ص٥٣١)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مقدمہ کی سماعت سے متعلق اصول بھی تعلیم فرمائے تھے۔ (مسنداحمد:ج١ص٩٦،١٤٣) پھر سیدناعلی سیدناصدیق اکبرکے دور خلافت میں ان کی مشیر رہے اورمفتی وقاضی کے فرائض انجام دیتے رہے۔اسی طرح سیدناعمرالفاروق کے زمانہ میں بھی آپ قاضی رہے اورسیدناعمرنے آپ کومدینہ کا قاضی مقررکیا تھا۔ (البدایہ والنھایہ:ج٧ص١٣)سیدنا عمرنے آپ کی قضاکی صلاحیت کااعتراف کرتے ہوئے فرمایاکہ علی اقضانا یعنی ہمارے بہترین قاضی علی ہیں۔ (الطبقات لابن سعد:ج٢ص١٠٢،بخاری شریف:ج٢ص٦٤٤)۔پھرسیدناعلی سیدناعثمان کے دورِخلافت میں بھی قاضی کے منصب پرفائزرہے۔
سیدناعثمان کی شہادت کے بعدجب سیدناعلی منصب خلافت پرفائزہوئے تو اگرچہ اپنے ماتحت علاقوںمیں قاضی مقرر کیے لیکن آپ خودبھی خاص خاص مقدمات کے فیصلے خودکیاکرتے تھے۔سیدناعلی قاضیوں کی تقرری خلیفہ کی ذمہ داری قرارد یتے تھے۔قاضی کی صفات کے متعلق سیدناعلی فرماتے تھے کہ ایک قاضی کواس وقت تک قاضی نہیں بنناچاہیے جب تک اس کے اندر پانچ صفات نہ ہوں۔(١)وہ پاک دامن ہو،(٢)بردبارہو،(٣)اپنے پیش رو قاضیوں کے فیصلوں سے بخوبی واقف ہو،(٤)وہ علمأوفقہأسے مشورے بھی لیتاہو،(٥)اللہ تعالیٰ کے احکام کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتاہواورنہ گھبراتاہو۔ (المغنی :ج٩ص٤٣) سیدناعلی اپنے زمانہء خلافت میں قاضی مقررکرکے انہیں بیت المال سے باقاعدہ تنخواہیں دیا کرتے۔اسی طرح آپ نے عدلیہ کوفیصلوں کے اندرمکمل آزادی دے رکھی تھی۔تاکہ قاضی بلاخوف وخطرہ شریعت کے مطابق فیصلے کریں۔چنانچہ جب آپ کے زمانہء خلافت میں آپ کے اورایک یہودی کے درمیان ایک زرہ کی ملکیت کا تنازعہ پیش آیااورمقدمہ آپ کے ہی مقرر کردہ قاضی شریح کے پاس گیااورانہوں نے آپ کی طرف سے شہادت مکمل نہ ہونے پرآپ کے خلاف فیصلہ دیا توآپ نے اسے بخوشی قبول کیااورزرہ یہودی کو دے دی گئی تویہودی یہ دیکھ کرکہ مسلمانوں کاخلیفہ اپنے ہی مقررکردہ قاضی کی عدالت میں ایک فریق ہونے کی حثیت سے خود آیااوراپنے خلاف فیصلے کوبرضاقبول کیاتووہ کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوگیااوراعتراف کیاکہ زرہ سیدناعلی کی ہے۔ (کنزالعمال:٦٤)
اقتصادی نظام
سیدناعلی کے زمانہء خلافت میں ملک کے اندر اقتصادی اور معاشی حالات درست تھے۔بیت المال کی آمدنی جن ذرائع سے ہوتی تھی ان میں بہت ہی احتیاط سے برتی جاتی تھی۔ چنانچہ آپ اپنے عمال (کارندوں)کوباقاعدہ ہدایات دیتے تھے کہ سرکاری واجبات (زکوة،صدقات،جزیہ،خراج ،عشروغیرہ)کی وصولی میں نہ سستی ولاپرواہی اختیار کی جائے نہ بے جاعوام پرظلم کیا جائے بلکہ آپ فرماتے تھے کہ واجبات کی وصولی میں عوا م پرنرمی وشفقت کامعاملہ کیا جائے اوراس حوالے سے عوام کوراضی رکھنے کی کوشش کی جائے۔چنانچہ سرکاری واجبات کے حوالے سے معذور، قلاش اور نادارافرادکے ساتھ سختی نہیں کی جاتی تھی۔ (کتاب الخراج:ص٦٩)
اسی طرح بیت المال کے مصارف کے بارے میں بھی حددرجہ احتیاط کرتے تھے۔پہلے ذکرکیاگیاہے کہ آپ خودبحثیت خلیفہ معمولی رقم بطورتنخواہ بیت المال سے لیتے تھے۔اسی طرح گورنروں اورسرکاری کارندوں کوبھی بیت المال کی رقوم کواس کے مصارف میں صحیح طورپر خرچ کرنے کی سختی سے ہدایات دیتے تھے اوران کی کڑی نگرانی کرتے تھے۔آپ بیت المال سے محتاج ،ضرورت مند افرادپر خرچ کرتے تھے اوراس بارے میں بہت وسعت ظرفی سے کام لیتے تھے
دفاعی نظام
سیدناعلی کی شجاعت وبہادری کازمانہ معترف تھا۔ہجرت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تقریباََتمام غزوات میں شرکت فرمائی اورجرأت وبہادری کے جوہر دکھائے۔سیدناعلی جنگی امور میں کافی تجربہ حاصل کرچکے تھے اس لیے آپ ماہروتجربہ کارجرنیل سمجھے جاتے تھے۔سیدناعلی نے اپنے زمانہء خلافت میں عسکری اموراور فوجی معاملات کی طرف توجہ فرما ئی اوراس میں اصلاحات نافذ فرمائیں۔اگرچہ آپ کے دور خلافت میں آپ کے لشکرمیں عراقیوں کی کثیر تعداد تھی جنہوں نے آپ کو ہمیشہ پریشان رکھااورکئی اہم جنگی معرکوں میں بزدلی،کمزوری اور لڑائی میں شرکت سے بچنے کے لیے بہانہ بازی وحیلہ سازی کامظاہرہ کیا اورمسلسل آپ کے احکام کی نافرمانی اوراصولوں کی خلاف ورزی کرتے رہے۔جس کی بناپر مخالفین نے آپ کے بارے یہ بات مشہورکردی کہ آپ کوجنگی فنون میں مہارت نہیں ہے،چنانچہ ایک موقع پر آپ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ”قریش”سمجھتے ہیں کہ ابوطالب کا بیٹا(سیدناعلی)بہادر تو ہے لیکن جنگی فنون سے آشنا نہیں ہے۔خاک آلود ہوں ان کے ہاتھ،کیاان میں کوئی مجھ سے زیادہ جنگی فنون میں ماہر ہے؟میں تو جنگوںمیں اس وقت پڑاتھا جب میری عمرابھی بیس سال کی بھی نہ تھی اوراب میں٤٠سال سے بھی زیادہ عمرپاچکا ہوں لیکن جس کی کوئی اطاعت نہ کر ے تواس کی رائے(مہارت وتجربہ)کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ (مروج الذھب:ج٢ص٦٢)
سیدناعلی کے مذکورہ بالاارشاد کے آخری جملے سے واضح ہوتاہے کہ جنگی وفوجی امورمیں مہارت وتجربہ کے باوجودآپ اپنے لشکر کی نافرمانیوں اوراصولوںکی خلاف ورزی کی وجہ سے بہت زیادہ عسکری کارنامے انجام نہیں دے سکے۔الغرض سیدناعلی نے اپنے زمانہء خلافت میں عسکری نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی چنانچہ شام کی سرحد پرکثیرتعداد میں فوجی چوکیا ں قائم کروائیں۔اسی طرح ایران میں ہونے والی بغاوتوں کے پیش نظربیت المال،عورتوں،اوربچوں کے تحفظ کے پیش قلعے تعمیر کیے گئے۔
دین کے لئے خدمات
خلفائے ثلاثہ کی طرح سیدناعلی کامقصدبھی دین کی خدمت تھا۔چنانچہ منصبِ خلافت پرفائزہونے کے بعد آپ نے اس حوالے سے بھرپور کاوشیں فرمائیں۔اسلام کی تعلیمات وہدایات کی تبلیغ واشاعت اوردینی نظام کی ترویج کے لیے شاندار خدمات انجام دیں علاوہ ازیں ایران اورآرمینیہ میں بعض نومسلم عیسائیوں نے ارتداداختیارکرلیاتوآپ نے ان کی سرکوبی کے لیے معقل بن قیس کو بھیجا جنہوں نے ان سے مقابلہ کیا اورانہیں دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل کیا۔(طحاوی شریف:ج٢ص١٠٢)
کرمان اورفارس کی عوام نے خراج دینے سے انکارکیاتوآپ نے لشکربھیج کرانہیں مطیع کیا۔(طبری:ج٦ص٧٩)
عمالوں کا احتساب
جیسا کے ذکرہوچکا ہے کہ سیدناعلی امورخلافت کی انجام دہی میں سیدنا عمرکی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے چنانچہ آپ بھی سیدناعمرکی طرح اپنے ماتحت حکام گورنروں اورکارندوں کے اعمال وسرگرمیوں پرکڑی نگاہ رکھتے تھے اوروقتاََفوقتاََان کااحتساب کرتے رہتے تھے۔بیت المال کی آمد وخرچ کے بارے میں بازپرس کرتے تھے اوراس بات کی تحقیق کرتے تھے کہ حکام کا عوام کے ساتھ طرزِعمل کیساہے اوریہ کہ عوام حکام کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آپ بعض اوقات باقاعدہ وفدبھی بھیجا کرتے تھے جیساکہ ایک مرتبہ معروف صحابی سیدنا کعب بن مالک کو ایک وفد کے ساتھ عراق کے تمام اضلاع کے حکام وعمال کے احتساب کے لیے بھیجا تھا۔(کتاب الخراج:ص٦٧)
بیت المال کی آمد وخرچ کے بارے میں سخت احتساب کرتے تھے اور اس حوالے سے معمولی سی فروگذاشت بھی برداشت نہ کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے قریبی رشتہ دار کے ساتھ بھی رعایت و نرمی کامعاملہ نہ کرتے تھے۔جیسا کہ مفسرِقرآن اورجلیل القدرصحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عباس جو سیدناعلی کے سگے چچازاد بھائی تھے،جب ان کی خلافت میں بصرہ کے گورنر تھے توان کے خلاف بیت المال کی رقم میں خوردبردکی بے جا وغلط شکایت کی گئی تو انہوں نے بذریعہ خط اس کی تردید کی لیکن سیدنا علی نے تردیدقبول کرنے کی بجائے ان سے بیت المال کی آمدوخرچ کی مکمل تفصیل طلب کی تو انہوں نے بطوراحتجاج گورنری سے استعفیٰ دے دیا۔ (ابن اثیر:ج٣ص١٩٤،البدایہ والنھایہ:ج٧ص٣٢٢)
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
سیدنا علی انپے زمانہ ء خلافت میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیا کرتے تھے۔آپ ایک ماتحت حکام وسرکاری کاندوں سے مالی احتساب کرتے تھے اوران کی ذاتی وانفرادی زندگی پربھی نظر رکھتے تھے تاکہ ان کی طرف سے کوئی برائی یا غلط رسم عوام میں نہ سرایت کرجائے دوسری طرف عوام کے اخلاق واعمال کی بھی نگرانی کرتے تھے اوراگر کوئی برائی دیکھتے توفوراًَ اسے ختم کرتے تھے۔جہاں ماتحت حکام کواس مقصد کے لیے ہدایات کی جاتی تھیں وہاں آپ بذات خود بھی امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہتے تھے اورجرائم کے مرتکب افراد پر تعزیری سزائیں بھی نافذ کرتے تھے۔چنانچہ فسق وفجور کی اشاعت اورفحاشی و عریانی پر مبنی باتوں کی اشاعت وتشہیرکوجرم سمجھتے اوراس پر سزادیتے تھے۔فرماتے تھے”جس شخص نے زناکی کسی واردات کولوگوں میں بیان کیا یا اس کی تشہیرکی تو سچاہونے کے باوجوداسے سزا ملے گی۔” (مصنف عبدالرزاق:ج٧ص٣٤١)
آپ کے زمانہ میں بدمعاش اوربدکردارافرادکوجیل میں ڈال دیاجاتاتھااورانہی کی رقم سے ان پرخرچ کیاجاتا تھااور اگرایسے آدمی کے پاس رقم نہ ہوتی توبیت المال (سرکاری خزانے) سے خرچ کیا جاتا تھااورفرمایاکرتے تھے کہ مسلمانوں سے ایک برائی کوقید کردیاگیا ہے۔(اوروہ اس برائی سے محفوظ ہوگئے ہیں) اب اس پرمسلمانوں کے بیت المال سے خرچ کیاجائے گا۔(کتاب الخراج لامام ابی یوسف:ص١٧٩)
No comments:
Post a Comment