علم فقہ

علم الفقہ
عربی لغت کے اعتبار سے فقہ کے معنی سمجھ کے ہیں اور اسلامی علوم کے حوالے سے یہ وہ علم ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل اسلامی شریعت کی روشنی میں تلاش کیا جاتا ہے ۔یہ علم زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ کرتا ہے ۔معاملات کی نوعیت کے اعتبار سے اسے جن شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ عبادات: اس میں عبادات اور اس سے متعلق تمام مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔
۲۔ معاملات: زندگی کے عام اور نئے پیش آنے والے مسائل کو حل کیا جاتا ہے ۔
۳۔ مناکحات: اس میں نکاح اور طلاق سے متعلق مسائل پر بحث کی جاتی ہے اور انکا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔
۴۔ مخاصمات: اس میں عدلیہ اور اس سے متعلق معاملات کو سلجھایا جاتا ہے ۔
۵۔ عقوبات: اس میں مختلف جرائم کے حوالے سے اسلامی سزاؤں کو طے کیا جاتا ہے ۔
۶۔ احکام السلطانیہ: اس میں حکومت اور اس سے متعلق معاملات کو دیکھا جاتا ہے اور مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔

علمِ فقہ کے بنیادی طور پر چار ماخذ ہیں جن پر اس علم کا انحصار ہے یہ ماخذ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس ہیں اور انکے علاوہ بعض دفعہ آئمہ کرام میں سے بعض نے مسائل کے حل کے لئے استحسان اور مصالح مرسلہ سے بھی مدد لی ہے ۔ آ ئمہ مجتہدین اور فقہا کے ہاں مسائل کے استخراج کا رائج طریقہ یہ رہا ہے کہ سب سے پہلے قرآنِ کریم کو ترجیح دیتے ہیں اگر قرآنِ پاک میں کسی مسئلے کا حل نہ ملے تو پھر سنتِ رسولﷺ سے رجوع کرتے ہیں اگر وہاں بھی کوئی حل یا اشارہ نہ ملے تو پھر اجماع سے مدد لیتے ہیں اور اجماع کے بعد قیاس سے کام لیتے ہیں ۔
قرآنِ کریم ۔
قرآنِ کریم میں زندگی کے بیشتر اہم مسائل کا واضح حل موجود ہے مثلا نکاح و طلاق، وراثت، جھاد، اسلامی سزائیں اور انکا نفاذ وغیرہ۔۔۔ اسی طرح حرام و حلال ، زکوٰۃ ، حج اور اس سے متعلقہ امور کے بارے میں بھی بہت اہم اور واضح احکامات ملتے ہیں ۔ لہذا پہلی ترجیح قرآنِ کریم کو دی جاتی ہے اور اس سے ملنے والے واضح احکامات کو فرض کا درجہ دیا جاتا ہے اور ایسے احکامات کی تکذیب کرنے والے شخص کو کافر کہا جاتا ہے جبکہ بلا عذر اس کے چھوڑ دینے والے کو فاسق کہا جاتا ہے ۔ قرآنِ کریم کو دلیلِ قطعی یا نصِ قطعی بھی کہا جاتا ہے ۔
مثالیں: یا ایھا الذین آ منو انما الخمر و المیسر و الانصاب و الازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ۔ انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ و البغضاء فی الخمر وا لمیسر و یصدّکم عن ذکرِ اللّٰہِ و عن الصلوٰۃ فھل انتم منتھون ۔ ( اے مومنوں ! بے شک شراب جوا بت اور جوئے کے تیر گناہ اور کارِ شیطان ہے لہذا اس سے بچو تاکہ تم فلاح پا سکو ۔ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تم میں عداوت و دشمنی پیدا کر دے اور تمہیں اللّٰہ کی یاد اور نماز سے روک دے پس کیا تم باز رہو گے؟)۔
سورۃ البقرۃ
وَ قرن فی بیوتکن و لا تبرجن تبرج الجٰھلیۃ الاولیٰ و اقمن الصلواۃ و اٰ تین الزکوٰۃ و اطعن اللّٰہ و رسولہ انما یرید اللّٰہ لِیُذْھِبَ عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ۔ ( الاحزاب ۳۳)
(اور اپنے گھروں میں ٹھہری رو اور زمانہ جاھلیت کی طرح بناو سنگھار نہ کرتی پھرو اور نما ز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو ۔ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ تم سے برائی (گناہوں) کو دور کر دے اور تمہیں پاکیزگی عطا کر دے ۔
سورۃ البقرۃ
وَ لا تقربو الفواحش ما ظھر منھا و ما بطن و لا تقتلو النفس التی حرم اللہ الا با لحقِ ( الانعام)
اور بے حیائی کے کاموں سے بچ کر رہو چاہے وہ کھلے ہوں یا پوشیدہ ۔ اور ا اسے قتل نہ کرو جس (کے قتل کرنے) کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔

یا ایھا النبی حرض المومنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صٰبرون یغلبو ما ئتین و ان یکن منکم ماءۃ یغلبو الفا من الذین کفرو بانھم قوم لا یفقھون۔ ( الانفال)
اے نبی ﷺ! مسلمانوں کو جہاد کا شوق دلایئے ۔ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے ۔ اس لئے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں ۔




و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ و یکون الدین للّٰہ ۔ ( بقرۃ )
اور ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کا ہو۔
سنتِ رسول ﷺ ۔
قرآنِ کریم فرقانِ حمید میں جو احکامات درج ہیں ان کی تشریح اور وضاحت ہمیں سنتِ رسول ﷺ سے ملتی ہے ۔ اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمیں قرآن میں صرف اشارے ملتے ہیں اور سنتِ رسول ﷺ پر عمل کیئے بغیر ان احکامات کو کما حقہ انجام دینا ممکن نہیں ہوتا مثلا نماز کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشاد ہو تا ہے کہ ’’ نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے آ گے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو‘‘ لیکن یہاں نماز اور زکواۃ کے دیگر مسائل مثلاً یہ کہ نماز کس وقت پڑھی جائے اور کس وقت نہ پڑھی جائے، کس وقت کتنی رکعت پڑھی جائے اور اسی طرح یہ کہ زکوٰۃ کس کو دی جائے اور کس کو نہ دی جائے اور اگر دی جائے تو اس کا نصاب کیا ہو اور یہ کس حساب سے دی جائے ۔ ان تمام باتوں کے بارے میں اس وقت تک مکمل طور پر جاننا ممکن نہیں ہے جب تک احادیثِ رسول ﷺ سے رجوع نہ کیا جائے ۔

مثالیں :۔
تم اپنی ہر حاجت کا اللہ سے سوال کرو ۔ حتی کہ جوتی کا تسمہ توٹنے کا بھی ۔
(ترمذی )
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھی سے تین دن سے زیادہ خفا رہے وہ اس سے تعلق نہ رکھے اور یہ اس سے تعلق نہ رکھے اور جب یہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں تو ایک ایک جانب اپنا منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری جانب۔ ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے ۔ ( بخاری۔ مسلم)

علمِ فِقہ اور اس کے ماخذ

شرعی اصطلاح میں اور عربی لغت کے اعتبار سے فقہ کے معنیٰ ’’ سمجھ ‘‘ کے ہیں ۔ قرآنِ کریم میں بھی یہ لفظ اپنے انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،
وَ طُبِعَ عَلَیٰ قُلوُبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُون۔
اور انکے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے ، پس یہ لوگ نہیں سمجھتے ۔
اسی طرح سورۃ طٰہٰ میں ارشادِ ربّانی ہے ،
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُ الْعُقْدَۃً مِنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْ قَوْلِیْ
اے رب میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آ سان بنا اور میری زبان کی لکنت کو دور کردے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں ۔
شرعی معنوں کے اعتبار سے علمِ فقہ وہ علم ہے جس میں انسانوں کے تمام مسائل کا حل اور معاملات کے بارے میں رائے قرآنِ کریم، سنتِ نبوی ، اجماع اور قیاس کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ ایسا شخص جو اس علم میں مہا رت رکھتا ہو اور قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل اور مستند رائے دینے پر قادر ہو اسے ’’ فقیہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ فقہا کے ہاں رائج طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ ہر قسم کے مسائل کے حل کے لئے سب سے پہلے قرآنِ کریم سے رجوع کرتے ہیں اگر قرآن میں اس مسئلے کے بارے میں کوئی حل نہیں ملتا تو پھر سنتِ رسول ﷺ میں اسے تلاش کرتے ہیں اور اگر وہاں بھی کوئی حل یا واضح اشارہ موجود نہ ہو تو پھر دینی علوم کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جسے اجماع اور قیاس کہا جاتا ہے ۔ اور یہ رائے قرآن و حدیث سے متصادم نہیں ہوتی ۔

علمِ فقہ کے حوالے سے قرآنِ کریم کی کچھ آیات مندرجہ ذیل ہیں ،
فَاِنْ تَنَا زَعْتُمْ فِیْ شَئ ءٍ فَرُدّوہُ اِلی اللّٰہ وَ الرَّسُوْل۔ ( نساء)
پس اگر تمہیں کسی بات میں اختلاف(تنازعہ) ہو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو۔

فَا سْءَلوُ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون (۴۳) النحل
(اور اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو)

وَ مَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبیَّنَ لَہُ الْھُدیٰ وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُوْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّیٰ وَ نُصْلِہِ جَھَنَّمَ وَ
سَآ ءَ تْ مَصِیْرَاً (۱۱۵) النساء
جو شخص سیدھا راستہ ظاہر ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی راہ اختیار کر لے جو مسلمانوں کی نہیں تو ہم اسے متوجہ رکھیں گے اسی طرف جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور داخل کریں گے اسے جھنم میں جو بہت برا ٹھکانہ ہے ۔

وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِنَّاسِ وَ مَا یَعْقِلُھَآ اِلاّ الْعَالِمُونَ (۴۳) العنکبوت
ھم یہ مثالیں لوگوں کے غور و خوض کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں اہلِ علم ہی سمجھتے ہیں ۔

فَا عْتَبِرُو یَا اُولی الْاَبْصَار (۲) الحشر
پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو!
یہاں عبرت حاصل کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قوتِ بصارت کو کام میں لاتے ہوئے معاملات پر غور کیا جائے اور حق کی پیروی کی جائے۔

کچھ احادیث کی مثالیں جن سے علمِ فقہ کا برحق ہونا ثابت ہوتا ہے مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ انا اقضی بینکم بالرای فیما لم ینزل فیہ الوحی۔
(حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ جن معامالات کے لئے وحی نہیں ہوتی میں انکا فیصلہ اپنی رائے سے کرتا ہوں )

۲۔ اقض بالکتاب و السنۃ اذا وجدتھما فاذا لم تجد الحکم فیھما اجتھد رائک۔
(آپ ﷺ نے ابنِ مسعودؓ سے فرمایا جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاو تو اس کے مطابق فتویٰ دو اور جب کوئی حکم قرآ ن و سنت میں نہ پاو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو )۔
(الاحکام اللّامدی۔ جلد ۳ صفحہ ۷۷)
۳۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو حضور اکرم ﷺ نے ایک علاقے کا عامل بنا کر بھیجنے سے پہلے ان سے دریافت فرمایا کہ تم پیش آ مدہ مسائل کا حل کس طرح تلاش کرو گے انہوں نے جواب دیا کہ قرآنِ مجیدسے۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر قرآنِ کریم میں کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہو تو پھر کیا کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ ﷺ کے اقوال ( یعنی سنت) میں اسے تلاش کروں گا ۔ حضور ﷺ نے تیسری مرتبہ پھر دریافت فرمایا کہ اگر کسی مسئلے کا حل میری سنت میں بھی موجود نہ ہو تو پھر کیا طریقہ اختیار کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ پھر میں اپنی رائے کا اظہار کروں گا ۔ اس بات کی حضور اکرم ﷺ نے اجازت دے دی ۔
(مسند احمد۔ ابو داود۔ ترمذی)

ان مثالوں سے یہ ثابت ہوا کہ مسائل کے حل کے لئے غور و فکر کرنا واجب ہے اور اس معاملے میں علما اور فقہا سے رجوع کرنا چاہیئے۔ بعض معاملات میں فقہا کی رائے مختلف ہو سکتی اس صورت میں جو رائے قرآن و سنت سے قریب تر محسوس ہو اسے اختیار کرنا چاہیئے ۔ (عموماً فقہا کے درمیان اختلاف عمومی اور رائج معاملات میں ہوتا ہے ، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر ذی فہم اپنے شعور اور عقل کی بنیاد پر معاملات کو سمجھتا ہے اور اس کی رائے دوسرے فرد سے مختلف ہو سکتی ہے مثلاً اس بات پر اختلاف ممکن ہے کہ جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد آمین بلند آ واز سے پڑھی جائے یا آ ہستہ ؟ لیکن بنیادی عقائد مثلاً توحید، آ خرت کے معاملے میں تمام فقہا متفق ہیں )۔
علما کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر دین کا فہم پیدا کرے اور اپنے معاملات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں طے کیا کرے اگر کہیں کسی معاملے میں الجھن ہو تو فقہا اور علمائے دین سے رجوع کرے کیونکہ لاعلمی اور اندھی تقلید بھی بسا اوقات جہالت کے اندھیروں میں لے جاتی ہے ۔ اس حوالے سے کچھ اقوال ملاحظہ کیجیئے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کا ارشاد ہے ’’ میں اس شخص کے بارے میں جو مرنے کے بعد وراثت نہ چھوڑے اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں پس اگر میری رائے صحیح ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر وہ غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے جس سے اللہ اور اسکا رسول ﷺ بری ہیں ‘‘۔
(جامع الصغیر)
اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے تقریر کرتے ہوئے زیادہ مہر مقرر کرنے کی ممانعت کی تو ایک خاتون نے آپؓ پر اعتراض کیا اور آپ کو حق بات سے آ گاہ کیا تب انہوں نے فرمایا ’’ اصابت امراۃ و اخطا عمر ‘‘ ( عورت کی رائے صحیح اور عمر کی غلط ہے )۔
( احیائے علوم الدین لغزالی جلد ۱)


ابنِ قیم نے امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا ’’ لا یحل لاحد ان یقول بقولنا حتیٰ یعلم من این قلنا‘‘
( کسی کے لئے جائز نہیں کہ ہمارے قول کی پیروی کرے جب تک کہ وہ یہ نہ جان لے کہ ہم نے یہ قول کس بنا پر کہا )۔
معن بن عیسیٰ سے روایت ہے کہ انہوں نے امام مالک کو یہ کہتے سنا ( انما انا بشأ اخطیٰ و اصیب انظروا فی رائی کلما و افق الکتاب و السنۃ فخذوا بہ و ما لم یوافق الکتاب وا السنۃ فاترکوہ‘‘ ( بے شک میں انسان ہوں ، غلط فیصلہ بھی دے سکتا ہوں اور صحیح بھی ۔ میری رائے پر غور کیا کرو پس جو رائے کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے اختیار کرو اور جو رائے کتاب و سنت کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو)
امام شافعی نے فرمایا ’’ ما قلت و کان النبی ﷺ قد قال بخلاف قولی فما صح عن النبی ﷺ الاولیٰ و لا تقلدونی و اذا صح خبر یخالف مذھبی فاتبعوہ واعلمو انہ مذھبی‘‘ ( اگر نبی اکرم ﷺ کا فرمان میرے قول کے خلاف ہو تو حضور ﷺ کا فرمان واجب التعمیل ہے اس وقت میری تقلید نہ کرو اور اگر کوئی حدیث میرے مسلک کے خلاف ہو تو حدیث کی پیروی کرو اور جان لو کہ وہی میرا مذہب ہے ۔
امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ ’’ لاتقلدنی و لا مالکاً و لا الشافعی و لا الثوری و خذ من حیث اخذوا ( نہ میری تقلید کرو نہ مالک کی نہ شافعی کی نہ ثوری کی بلکہ انہی ماخذوں کو پیشِ نظر رکھو جو ان کے پیشِ نظر تھے یعنی قرآن و حدیث )
القول المفید ۔ صفحۃ ۱۵ تا ۲۷س
 اجماع
تمام فقہا کے نزدیک قرآن و حدیث کے بعد فقہی ماخذ میں درجہ اجماع کا ہے ۔ لغوی طور پر اس کے معنیٰ عزم و اتفاق کے ہیں ۔ اسکی عام تعریف یہ ہے کہ’’ کسی زمانے میں علما اور مجتہدین کا کسی مسئلے کے بارے میں کسی ایک رائے پر متفق ہو جانا اجماع ہے ‘‘۔ اس کی مزید تفصیل کچھ یوں ہے ،
۱۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مدینے کے علما و مجتہدین کا کسی رائے پر متفق ہوجانا بھی تمام مسلمانوں کے لئے حجت ہے ۔
۲۔ شیعہ مذہب کے مطابق صرف اہلِ بیت کا اجماع ہی معتبر ہو گا اور اگر کبھی مجتہدین اجماع کے لئے محفل کا انعقاد کریں تو اس اجماع میں ایک امام معصوم کی رائے اور تائید بھی شامل ہو ۔
۳۔ اہلِ سنت کے مطابق اجماع کا اختیار صرف مجتہدین اور فقہا کو ہی حاصل ہے اگر کسی مسئلے پر اجماع کے لئے کوئی محفل منعقد ہو تو اس میں کوئی غیر مسلم شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح اس میں کوئی نابالغ اور مجنون بھی شامل نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف ایسے لوگوں تک محدود ہے جو علمِ فقہ پر پوری طرح دسترس رکھتے ہوں۔ اور ان میں مندرجہ ذیل صلاحیتیں لازماً پائی جاتی ہوں۔
اجماع کے لئے مجتہد کی شرائط۔
۱۔ مجتہد کا فقہ سے واقف ہونا ۔
۲۔ قرآنِ کریم کے احکامات کا علم ہونا ۔
۳۔ احادیث سے واقفیت رکھنا اور خبرِ متواتر، خبرِ مشہوراور خبرِ واحد کے درمیان فرق کرنے کی اہلیت رکھنا۔
۴۔ قیاس کے اصول و قواعد سے واقف ہونا ۔
۵۔ ملک کے رسم و رواج اور لوگوں کی عادات سے واقف ہونا ۔
مسائل کے حل کے لئے اجماع کا طریقہ اختیار کرنے کے متعلق قرآنِ کریم میں واضح اشارات ملتے ہیں اور اسی طرح احادیث سے بھی اجماع کا درست ہونا ثابت ہے اور عقلی طور پر بھی یہ بات بالکل درست اور قابلِ فہم ہے کہ فقہا و مجتہدین کی کثیر تعداد جب کسی ایک رائے پر متفق ہو تو وہ رائے یقیناً درست اور اسلامی شریعت کے مطابق ہو گی۔ اجماع ہمیشہ فروعی یعنی رائج الوقت مسائل کے بارے میں کیا جاتا ہے اسکا تعلق ایمان اور عقائد کے معاملات سے نہیں ہوتا اس سے مراد یہ ہے کہ اجماع اسلام کے بنیادی عقائد کو تبدیل نہیں کرسکتا بلکہ اجماع کے ذریعے صرف نئے آنے والے ایسے معاملات کو حل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو ۔ اس حوالے سے حنفیوں کے ہاں مندرجہ ذیل شرائط پائی جاتی ہیں ۔
اجماع کے درست اور واجب ہونے کے لئے شرائط
۱۔ اسکے متعلق کسی صحابی نے اختلافِ رائے کا ظہار نہ کیا ہو ، یا کسی مجتہد نے اجماع منعقد ہونے سے پہلے اسکے خلاف رائے نہ دی ہو ۔
۲۔ جو مجتہدین اجماع کی محفل میں شریک تھے ان میں سے کسی نے بعد میں اپنی رائے تبدیل نہ کی ہو ۔
۳۔ فیصلہ خفیہ نہ ہو بلکہ مشہور و معروف ہو ۔
۴۔ فیصلہ قرآنِ کریم کی کسی آیت، یا احادیثِ نبوی میں سے کسی خبرِ مشہور یا خبرِ متواتر پر مبنی ہو ۔
۵۔ اجماع با ضابطہ طور پر منعقد ہوا ہو۔ ( یعنی خفیہ طور پر چند فقہا کا فیصلہ کر لینا معتبر نہیں ہو گا )۔
شریعتِ اسلامی میں اجماع کی اہمیت
۱۔ جب کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اس پر تمام صحابہ کا اجماع اس حکم کی مانند ہو گا جو قرآنِ کریم سے ثابت ہو اور ایسے اجماع کا انکار کرنے والا کافر کہلاتا ہے ۔
۲۔ صحابہ کرام کا اجماعِ سکوتی ( یعنی جسکے بارے میں بعض صحابہ نے خاموشی کا اظہار کیا ہو اور تردید یا تائید نہ کی ہو ) یہ خبرِ متواتر جیسی اہمیت رکھتا ہے اس پر عمل واجب ہے لیکن اس کے منکر کو کافر نہیں کہا جائے گا ۔
۳۔ اگر کسی مسئلے پر صحابہ کا قول موجود نہ ہو لیکن تابعین کا اجماع موجود ہو تو ایسے اجماع کی حیثیت خبرِ مشہور کی مانند ہے اور اس کا منکر گمراہ کہلاتا ہے ۔
۴۔ امتِ محمدیہ کے مجتہدین کا کسی با ت پر اجماع خبرِ واحد کا درجہ رکھتا ہے اور اس پر عمل واجب ہے لیکن اس کے منکر کو گمراہ نہیں کہا جاتا ۔


اجماع کی اقسام ۔
فقہا نے اجماع کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کی ہیں ۔
اجماعِ قولی
اگر کسی مسئلے کے بارے میں فقہا و مجتہدین متفق ہو کر کسی ایک رائے کا اظہار کر دیں تو ایسے اجماع کو قولی اجماع کہا جائے گا اور یہ فقہا کے نزدیک ایک تسلیم شدہ حجت ہے ۔
اجماعِ سکوتی
جب کوئی فتویٰ کی اہلیت رکھنے والا اپنی رائے کا اظہار کر دے اور دیگر علما و فقہا اس کی تائید یا تردید نہ کریں بلکہ خاموشی کا اظہار کریں تو ایسے اجماع کو اجماعِ سکوتی کہا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی درست اور جائز ہے۔( شافعی مسلک میں اسے حجت تسلیم نہیں کیا جاتا جبکہ حنفیوں کے ہاں اسے حجت قرار دیا جاتا ہے )۔
نوٹ: حُجَّتْ سے مراد وہ رائے یا فیصلہ ہے جو کسی ٹھوس دلیل پر مبنی ہو جسے درست اور قابلِ عمل قرار دیا جا سکتا ہو۔
اجماع کے حوالے سے کچھ دیگر معاملات مندرجہ ذیل ہیں جنکے بارے میں فقہا کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ کیا ایک اجماع کا فیصلہ کسی دوسرے اجماع سے منسوخ ہو سکتا ہے ؟ اسکی صورت یہ ہے کہ علما کی جماعت ایک فیصلہ کرے اور وہی جماعت کچھ عرصہ بعد اپنے اس سابقہ فیصلہ کو منسوخ کر دے اور کسی نئی رائے کا اظہار کر دے بعض علما کے ہاں یہ درست اور بعض کے ہاں نا جائز ہے ۔دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ علما کی ایک جماعت کوئی فیصلہ کرے اور بعد میں کوئی اور جماعت اجماع میں اسکے خلاف فیصلہ کرے اسکی( امام بصری اور امام رازی کے علاوہ) تمام علما نے مخالفت کی ہے کیونکہ اجماع کے شرعی حجت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسکے خلاف کوئی اور اجماع نہیں ہو سکتا ۔


قیاس
قیاس فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ ہے ۔ اسکے لغوی معنیٰ اندازہ لگانے کے ہیں ۔ فقہی اصطلاح میں ایسا مسئلہ جس کا حل قرآن و حدیث میں نہ ملے اور نہ ہی اجماع میں اسکے بارے میں کچھ طے ہوا ہو اسکے لئے قیاس کیا جاتا ہے اور اسکی صورت یہ ہے کہ پہلے سے موجود تینوں ماخذ ( قرآن ، حدیث اور اجماع) میں نئے آنے والے مسئلے کے متماثل کسی مسئلے کو دیکھا جاتا ہے اور اسی پر قیاس ( اندازہ ) کر کے اس نئے مسئلے کا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔ اسکے لئے شرط یہ ہے کہ پچھلے مسئلے اور زیرِ بحث مسئلے میں میں بنیادی خصوصیات مشترک ہوں ۔ مثلاً قرآنِ کریم میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس حرمت کی وجہ شراب سے پیدا ہونے والا نشہ ہے اب کیا نبیذ ( کھجور کی شراب) کا استعمال بھی حرام ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا و مجتہدین نے شراب پر قیاس کر کے نبیذ کو بھی حرام قرار دیا ہے کیونکہ جو خصوصیات انگور کی شراب میں پائی جاتی ہیں وہی تمام خصوصیات کھجور کی شراب میں بھی موجود ہیں اور چونکہ ’’ نشہ‘‘ دونوں کی مشترک خصوصیت ہے لہذا شراب پر قیاس کرتے ہوئے نبیذ کو بھی حرام قرار دیا گیا ۔
قیاس کی بنیادی اقسام دو ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ قیاسِ طرد ۔
اگر دو مختلف چیزوں ( یا معاملات) میں خصوصیات ایک جیسی ہوں اور انکی بنا پر قیاس کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں اسے قیاسِ طرد کہا جائے گا ۔ مثلا انگور اور کھجور کی شراب میں خصوصیات کا ایک ہونا ۔
۲۔ قیاسِ عکس۔
اگر دو اشیا ( یا معاملات) میں خصوصیات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہوں تو اسطرح انکے حرام یا حلال ہونے کا فیصلہ کرنا قیاسِ عکس کہلاتا ہے مثلا یہ کہنا کہ دودہ اس لئے حلال ہے کہ اس میں شراب کی مانند نشہ نہیں ہے ۔

قیاس کے ارکان مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔ اصل یا نص : اسے مقیس علیہ بھی کہتے ہیں یعنی جس چیز پر قیاس کیا جائے ۔ (اوپر دی ہوئی مثال میں شراب اصل ہے) ۔
۲۔ فرع یا مقیس: جس چیز کو قیاس کیا جائے ۔ (اوپر دی ہوئی مثال میں نبیذ فرع یا مقیس ہے )۔
۳۔ حکم : جو قیاس کے بعد لگایا جائے ۔( نبیذ کا حرام ہونا حکمِ شرعی ہے )
۴۔ علت: وہ خصوصیت جو مقیس اور مقیس علیہ میں مشترک ہو ۔( نشہ علت ہے یعنی شراب و بنیذ کی مشترک خصوصیت)۔



اجتہاد

شرعی دلائل کے ذریعئ مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش اجتہاد کہلاتی ہے ۔ اور اجتہاد کرنے والے کو مجتہد کہا جاتا ہے ۔ اسکے برعکس اگر یہ کوشش نہ کی جائے بلکہ پہلے سے موجود کسی رائے کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو اسے تقلید کہا جاتا ہے ۔ اہلِ علم اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والوں پر اجتہاد لازم ہے جبکہ علم نہ رکھنے والے اور عام افراد کے لئے تقلید درست اور بہتر ہے ۔ تقلید کرنے والے کو مقلد کہا جاتا ہے ۔ قواعدِ عامہ کے مطابق الفتویٰ فی الحق الجاھلِ کالاجتھاد فی الحق المجتھد۔ ( فتویٰ ان پڑھ کے لئے ایسا ہے جیسے اجتہاد مجتہد کے لئے )۔
تقلید کا لفظ ’’ قلادۃ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی گلے کی رسی کے ہیں یعنی گویا کہ اس سے مراد بلا چوں و چرا کسی کی رائے کو درست تسلیم کرتے ہوئے اسی کے پیچھے چلنا اور اس کی تقلید کرنا۔
شرعِ اسلامی میں اجتہاد کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور قرآن و حدیث سے اسکا جائز ہونا ثابت ہے ۔ تیرھویں صدی عیسوی سے قبل مسلمانوں میں بہت سے نامور لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دینی علوم کی ترویج و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا اور اسی دور میں چاروں مسالک حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی تدوین کیئے گئے لیکن سقوطِ بغداد کے بعد علمائے اہلِ سنت نے کہا کہ چونکہ چاروں مسالک مکمل ہو چکے ہیں اور انہیں محفوظ کیا جا چکا ہے لہذا اب اجتہاد کے دروازے کو بند سمجھا جائے اور ہر طرح کے نئے مسائل کے لئے انہی چاروں مسالک سے رجوع کیا جائے ۔ اسکے بعد تاریخ شاہد ہے کہ بہت سی خرافات پیدا ہونے لگیں اور اوہام پرستی کا دور شروع ہو گیا ایسے عقائد نے جنم لیا جن کا شرع اسلامی سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ یہ صورتحال عرصہ دراز تک چلتی رہی اور مسلمان علم کے میدان میں انیسویں صدی عیسوی تک کوئی خاطر خواہ ترقی نہ کر سکے ۔ انیسویں صدی عیسوی اور اس کے بعد ایسے فقہا پیدا ہوئے جنہوں نے اجتہاد کے بند دروازے کو کھولا اور مسلمان علما و فقہا کو اجتہاد کی طرف راغب کیا ۔ ان علما میں حنبلی فقہا ابن القیم الجوزیہ اور ابنِ تیمیہ اور ان کے علاوہ شیخ محمد عبدہ اور سعودیہ کے مولانا عبد الوہاب شامل ہیں ۔
اجتہاد کرنے کا حق کسی عام شخص کو حاصل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے لازم ہے کہ مجتہد ،
عربی زبان پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ تفسیرِ قرآن سے واقف ہو اسکے ساتھ ساتھ اسبابِ نزول ، راویوں کے حالات جرح و تعدیل کے طریقوں ، ناسخ و منسوخ کی حقیقت سے واقف ہو ۔ مقاصدِ شریعت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اسکی ذاتی خوبیوں میں یہ ضروری ہے کہ وہ صائب الرائے ہو، صاحب فراست ہو انصاف پسند ہو ، پاکیزہ اخلاق کا مالک ہو ۔ اور احکام سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد دین کا ایک اہم جزو ہے اور اس کا اہل ہونے کے لئے شریعت میں کافی اہم شرائط موجود ہیں ۔ دورِ جدید میں بعض خرابیاں ایسی پیدا ہوئی ہیں کہ جن کو شرعی لحاظ سے جائز قرار دینے کے لئے بار بار اجتہاد کا نام لیا جاتا ہے حالآنکہ اجتہاد کے ذریئعے یہ ممکن نہیں ہے کہ دین کی بنیادی تعلیمات کو تبدیل کر دیا جائے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا جائے ۔ مثلاًیہ ممکن نہیں ہے کہ خواتین کے پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اسے اسلام سے خارج کر دیا جائے اور بے پردگی کو عام کر دیا جائے ۔
مجتہد ین کی کچھ اقسام ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

مجتہد فی الشرع: مجتہد فی الشرع وہ ہے جو کسی خاص مذہب کا بانی ہو مثلا امام ابو حنیفہ ؒ ، امام احمد بن حنبل ؒ ، امام شافعی ؒ ، امام مالک بن ا نس ؒ اور امام جعفر صادقؒ
مجتہد فی المذہب : ایسا مجتہد جو کسی ایک امام کا مقلد ہو لیکن بعض معاملات میں اپنے امام سے اختلاف رکھتا ہو مثلاً امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد امام ابو یوسف ؒ ۔ اور امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ ۔ اسی طرح امام شافعی ؒ کے شاگرد امام مزنی ؒ ۔
مجتہد فی المسائل : ایسا مجتہد جو مذہب کے اصول و مبادی میں تو نہیں البتہ عام فروعی مسائل میں اپنے اجتہاد سے کام لے مثلاً حنفی مذہب میں طحاوی، سرخسی، اور مذہب شافعی میں غزالی وغیرہ۔
مجتہدمقید: ایسا مجتہد جو آ راء سلف کا پابند ہو لیکن احکام اور انکی نوعیت کو اچھی طرح سمجھتا ہو ۔ ایسے مجتہدوں کو اصحابِ تخریج بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مذہبی مسائل میں مختلف آراء میں ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ایسے مجتہد مذہبِ حنفی میں کرخی، قدوری، صاحبِ ہدایہ ہیں ۔

(ڈاکٹر صبحی مخمصانی۔ فلسفہ شریعت اسلام)


No comments:

Post a Comment