قرآن اور جدید سائنس۔ چند منتخب آیات دلچسپ حقائق (ڈاکٹر ذاکر نائک کے قلم سے )

 

 

قرآن اور سائنس ( چند منتخب آیات اور اس حوالے سے سائنسی تحقیق)

ڈاکٹر ذاکر نائک کی کتاب قرآن اور جدید سائنس سے انتخاب

 

أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٧٩﴾‏

16-79

کیا اِن لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کسی طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے اِن کو تھام رکھا ہے؟ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں

یمسکھن کا مطلب ہے   کسی چیز پر ہاتھ ڈالنا، روکے رکھنا،  گرفت میں لینا ، واپس موڑنا ۔

  کی کتاب Prof. Hamburger    

'Power and Fragility

اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک پرندہ مٹن برڈ بحر الکاہل میں  رہتا ہے وہاں سے یہ چوبیس ہزار کلو میٹر کا فاصلہ چھ ماہ میں طے کرتا ہے  زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی تاخیر سے واپس اپنے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ یہ آٹھ کے ہندسے کی شکل میں  سفر کرتا ہے ۔

مشرقی سائبیریا کا پرندہ Plover جو الاسکا میں پایا جاتا ہے، الاسکا سے موسم سرما میں جنوب کی طرف جزائر ہوائی کی جانب نقل مکانی کرتا ہے۔ اس کا پورا سفر بلاتوقف بحرالکاہل پر پرواز کرکے ہوتا ہے۔ یہ ڈھائی ہزار میل کا لمبا سفر ایک اڑان میں مکمل کرتا ہے۔ 

قاز اپنی نقل مکانی اور طویل سفر میں’’وی‘‘ کی شکل میں اڑتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ایک قاز اپنی جگہ سے ہٹ جائے یا پیچھے رہ جائے تو وہ ہوا کا دباؤ محسوس کرتی ہے اس لئے جلد ہی واپس اپنے مقام پر آجاتی ہے۔ جو قاز لیڈر کے طور پر سب سے آگے اڑ رہی ہوتی ہے وہ ہوا کے دباؤ کو سب سے زیادہ برداشت کرتی ہے۔ جب وہ تھک جاتی ہے تو پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ بناتی ہے اور دوسری قاز آگے بڑھ کر رہنمائی کا کام انجام دیتی ہے۔

جو قازیں پیچھے ہوتی ہیں وہ مسلسل آواز نکالتی رہتی ہیں تاکہ رفتار برقرار رکھ سکیں ۔ اگر کوئی قاز دورانِ سفر بیمار ہوجائے یا زخمی ہوجائے یا کسی کی گولی کا نشانہ بن جائے اور زمین کی طرف گرنے لگے تودو قازیں اس کے ساتھ زمین کی طرف اڑتی ہیں تاکہ اس کی مدد کرسکیں اور اس کی حفاظت کرسکیں۔ یہ مجروح قاز کے ساتھ رہتی ہیں تاآنکہ وہ صحتیاب ہوجائے اور اڑنے کے قابل ہوجائے یا پھر مر جائے۔ اس بعد قازیں دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں اور کسی دوسرے جھنڈ کے ساتھ مل کر واپس اپنے ساتھیوں سے جاملتی ہیں۔ 

 مزید تفصیل کے لئے  دیکھیئے۔

https://www.inquilab.com/education/photos/interesting-and-unknown-facts-about-the-world-of-birds-10183#3 

 

·         وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ﴿٦٨﴾

ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٦٩﴾‏

16(68-69)

اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور  چھپروں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں.

1973  Von Friseh   کو  شھد کی مکھی پر کام  کے حوالے سے نوبل انعام ملا تھا  اس نے  بتایا کہ شھد کی مکھی کو جب کوئی  نیا پھول یا نیا باغ ملتا ہے تو وہ کس طرح باقی ساتھیوں کو اس کے بارے میں، اسکی سمت اور نقشہ کے بارے میں  آ گاہ کرتی ہے۔ اسکے لئے فوٹو گرافی اور اس جیسے دیگر ذرائع استعمال ہوتے ہیں ۔.

دوسرا پہلو یہ ہے کہ شھد کی مکھی کے لئے مونث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے  اور حقیقت یہی ہے کہ  سپاہی اور دیگر مکھیاں بھی مونث ہیں  اور اپنی ملکہ کو جواب دہ ہوتی ہیں ۔

اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ شھد شھد کی مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے ۔ اس میں شفا ہے ۔ یہ جراثیم کش ہے

دوسری جنگ عظیم میں روسی اپنے زخمیوں کے زخموں پر شھد لگاتے تھے جس سے وہ زخم ٹھیک ہو جاتے تھے ۔

انگلیڈ کے  نرسنگ ہومز میں بائیس مریض زیر علاج تھے جنہیں سینے میں تکلیف تھی ۔  سسٹر کارولی نے پروپولیس (Propolis )  سے ان کا علاج کیا ۔  اور وہ شفایاب ہو گئے۔  پروپولیز شھد کی مکھی مہیا کرتی ہے اور اسے اپنے چھتے کو بیکٹیریا سے بچانے کے لئے استعمال کرتی ہے ۔

 اگر کسی شخص کو  کسی پودے سے الرجی ہو تو اسی پودے کی مدد سے تیار کیئے گئے شھد سے اس کا علاج ممکن ہوتا ہے ۔

 

·         مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾‏ 

جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم رکھتے

29-41

اسکے دو پہلو ہیں۔ بظاہر خوشنما لگتا ہے لیکن انتہائی کمزور گھر مکڑی کا گھر ہے ۔   اس میں مادہ مکڑی نر مکڑی کو ہلاک کر دیتی ہے (for example black widow)  مالک حقیقی کے ساتھ رشتہ چھوڑ کر دوسروں کے ساتھ تعلق قائم کر لیتے ہیں  اور اسکا انجام  تباہی ہوتا ہے ۔

 

·         وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿١٧﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ  ﴿١٨﴾‏

سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے

(ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا) یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا "“اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو"

27(17-18)

زمانہ  قدیم میں   چیونٹیوں کے حوالے سے زیادہ تحقیق نہیں ہوئی تھی اس لئے  ان کے نظام کے بارے میں زیادہ  معلومات بھی میسر نہیں تھیں اور  ان کا آپس میں باتیں کرنا  یا نظم و ضبط  سے رہنا   عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا  تاہم  طویل عرصہ کی تحقیق کے بعد اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چیونٹیوں میں کچھ ایسی عادات ہیں جو بہت دلچسپ ہیں ۔

یہ اپنی مردہ چیونٹیوں کو دفن کرتی ہیں۔

ان میں کاموں کی تقسیم پائی جاتی ہے  مینیجر، شپر وائزر،  فورمین، کارکن وغیرہ ۔

آپس میں  اطلاعات دینے کے لئے جدید نظام  موجود ہوتا ہے ۔

آپس میں گپ شپ کے لئے اکٹھے  بیٹھتی ہیں ۔

ان میں مارکیٹ کا نظام ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ چیزوں کا تبادلہ کرتی ہیں ۔

سردیوں کے لئے اناج کا ذخیرہ کرتی ہیں اگر وہ کسی وجہ سے گیلا ہو جائے تو اسے دھوپ میں رکھ کر سکھا دیتی ہیں ۔

اسکے علاوہ۔ پانی سے گزرنے کے لئے  ایک دوسرے کی مدد سے پل بنا سکتی ہیں ۔

اپنے بلوں کو آرام دہ بنانے کے لئے پتوں کا استعمال کرتی ہیں۔

 

قرآنِ مجید میں بادلوں کے بھاری ہونے کا ذکر

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بادلوں کی تخلیق، ان کی حرکت اور بارش برسنے کے مراحل کو کئی مقامات پر بیان فرماتا ہے۔ ایک اہم آیت ملاحظہ فرمائیں:

﴿اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ...
سورۃ الروم: 48

ترجمہ:
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادلوں کو اُبھارتی ہیں، پھر وہ انہیں آسمان میں پھیلاتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور ان کو ٹکڑوں میں جمع کر دیتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے بارش نکلتی ہے...

ایک اور جگہ فرمایا:

﴿وَيُنَشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ﴾
سورۃ الرعد: 12

ترجمہ:
"
اور وہ (اللہ) بھاری بادلوں کو اٹھاتا ہے۔"

یہ آیت صراحت سے "بادلوں کا بھاری ہونا" بیان کرتی ہے، جو جدید سائنس کے مطابق بھی درست ہے۔


جدید سائنسی تحقیق کیا کہتی ہے؟

سائنسدانوں کے مطابق بادل دراصل پانی کے ننھے ننھے قطروں یا برف کے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہر قطرہ بہت ہلکا ہوتا ہے، لیکن بادل میں لاکھوں کروڑوں قطرے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا مجموعی وزن بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔

  • ماہرینِ موسمیات کے مطابق:
    • ایک درمیانے سائز کے کومولس (Cumulus) بادل کا وزن تقریباً 500,000 کلوگرام (یعنی 500 ٹن) تک ہو سکتا ہے!
    • کچھ بڑے بادلوں کا وزن اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے، حتیٰ کہ لاکھوں ٹن۔

یعنی جو بادل ہمیں آسمان میں ہلکے اور روئی جیسے نظر آتے ہیں، وہ دراصل "بھاری بادل" ہوتے ہیں — بالکل ویسا ہی جیسا قرآن میں فرمایا گیا۔


نتیجہ

قرآن مجید نے 1400 سال قبل ہی "سَحَابٍ ثِقَال" یعنی "بھاری بادلوں" کا ذکر کیا، جبکہ جدید سائنس نے اب جا کر ان کے وزن کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ یہ قرآن کے اعجاز کا ایک اور روشن پہلو ہے۔

 

 

 

 


No comments:

Post a Comment