وجود باری تعالیٰ

وجود باری تعالیٰ

اللہ تعا لیٰ نے تمام مخلوقات کو ایک دوسرے سے مختلف اور ان کے ماحول کے مطابق جہاں پر وہ رہتے ہیں ۔پیدا کیا ہے تمام جاندار اسی ماحول کے مطابق خود کو بچاتے ، شکار کرتے اور اپنی زندگی بسرکرتے  ہیں ۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں۔ جو ایک خاص طریقے سے اپنے اندر وقتی طور پر تبدیلی لا کر اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ کچھ اچھے اداکار ہوتے ہیں اور کچھ اپنی ذہانت اور ہوشیاری کے ذریعے اپنی جان بچا لیتے ہیں۔ اب یہا ں پر ہم کچھ  ان جانوروں کی  دلچسپ اور حیران کردینے والی مثالیں بیان کریں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے  اپنی قدرت سے سطح زمین پر یا سمندروں کی گہرائیوں میں پیدا کیا ہے۔

 فوجیوں کی زندگی میں خود کو اپنے دشمنوں کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لئے اردگرد کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لینے کی تکنیک  ھمیشہ سے کارآمد رہی ہے۔  حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی اپنی حفاظت کیلئے یہ طریقہ اپنا تے ہیں۔ بلکہ شائد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسانوں نے ایسی تکنیک جانوروں سے ہی سیکھی ہے۔  عموما یہ دیکھا گیا ہے  کہ  تمام جانوروں کے جسم کے خدوخال اور رنگ و روپ وغیرہ بالکل اپنے ارد گرد کے ماحول سے مشابہ ہوتے ہیں  ۔ اور ان میں سے بعض تو اپنے ارد گرد کے ماحول سے اس قدر مطابقت رکھتے ہیں کہ انکے ماحول میں انہیں تلاش کرنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے ۔ انہیں صرف اس  وقت دیکھا جا سکتا ہے جب ان کا جسم حرکت میں ہو۔  مثلاً درختوں کی شاخوں پر رہنے والی مکڑی کا رنگ  اور بناوٹ مکمل طور پر  درخت کی چھال جیسی ہوتی ہے۔ جبکہ پھولوں کی پتیوں پر جالے بننے والی مکڑی کا رنگ پھول کی پتیوں جیسا ہوتا ہے ۔ پودوں کی شاخوں پر رہنے والا  ایک سبز  سانپ بھی اپنے ماحول کے پتوں سے اس قدر مشابہ ہوتا ہے کہ جب تک وہ ساکت رہے اسے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اسی طرح مختلف علاقوں کے مینڈک اپنے ارد گرد کے ماحول کے مطابق مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں اسی کی بدولت  نہ صرف اپنے دشمنوں سے بچے رہتے ہیں بلکہ خود کیڑے مکوڑوں کو نہایت مہارت سے شکار کر لیتے ہیں یہ تمام جانوروں کی تبدیلیٔ ہیت  (Camouflage) کی چونکا دینے والی مثالیں ہیں۔ جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام جانوروں کا یہ بہروپ قدرتی طور پر اور ایک مقصد کے تحت ہے اور یہ سب کچھ انہیں پیدا کرنے والے کی جانب سے عطا کیا گیا ہے ۔
اسکی مزید مثالیں دیکھیئے کہ جس طرح سر سبز پودوں اور گھاس پھونس میں سبز رنگ کے کیڑے مکوڑوں کو تلاش کرنا  مشکل ہے اسی طرح شیروں کو سنہری گھاس کے وسیع میدانوں میں دیکھ پانا بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ گھات لگا کر بیٹھے رہتے ہیں  اور موقع پاتے ہی اپنے شکار کو نہایت ہوشیاری سے اچانک دبوچ لیتے ہیں۔ خالق نے انہیں جو رنگ دیا ہے وہ ان کے ماحول کی گھاس، مٹی  اور پتھروں کے رنگوں کا  حسین امتزاج ہے  اس ماحول میں جب یہ چھپ کر آھستہ آھستہ ایک فوجی کی مانند رینگتے ہوئے اپنے شکار کی طرف بڑھتے ہیں اور جس پھرتی سے اچانک اس پر حملہ آور ہوتے ہیں  اسے دیکھ کر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ انہیں سکھایا گیا ہے اور ان کی ضرورت اور ماحول کے مطابق ان کے رنگ و روپ کو ڈھالا گیا ہے۔

ایک اور جاندار کی مثال دیکھیئے جو قطب شمالی کا ایک پرندہ ہے (پولر برڈ) اور زمین کے سرد ترین حصے میں زندگی بسر کرتا ہے ۔اس کا مسکن ایک پتھریلے علاقے میں ہے جو کہ مکمل طور پر برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس پتھریلی زمین پر سال کے بیشتر حصہ میں جا بجا  برف کی سفید چادر بچھی رہتی ہے جب یہ پرندہ پتھروں کے درمیان بیٹھا ہو تو آپ اس کو نہیں دیکھ سکتے۔اسے دیکھنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ آیئے اس کی بناوٹ کو تفصیلاً دیکھتے ہیں۔ اس پرندے کے سفید پروں کو اگر دیکھا جائے تو رنگ اور نرمی کے لحاظ سے با لکل برف کی مانند ہیں۔ زمین اور پتھروں کے جو  جو حصے نظر آرہے ہیں، بعینہ اسی قسم کے نقش و نگار پرندے کے جسم پر بھی جا بجا موجود ہیں، گویا زمین پر پڑی برف اور پتھر اور پرندے کے جسم پر بنے نقش ۔ بالکل ایک دوسرے کی نقل ہیں۔ ان میں فرق کرنا بے حد مشکل ہے۔

جب سردی مزید بڑھ جاتی ہے اور برف باری سے  ماحول کی ہر چیز پر برف کی لا تعداد تہیں جم جاتی ہیں اور تاحدِ نظر سفید برف کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا تو اس پرندے کے جسم پر بھی تبدیلی آ جاتی ہے اور اسکے تمام سیاہ پر بھی سفید ہو جاتے ہیں۔  اب برف پر بھاگتے دوڑتے اس پرندے  کو تلاش کرنا یقینی طور پر بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس کے جسم میں واحد سیاہ حصہ اسکی آنکھوں کے اوپر  ایک بیضوی لکیر کی شکل میں رہ جاتا ہے جسکا مقصد برف سے ٹکرا کر آنے والی سورج کی شعاعوں کو روکنا ہے تاکہ پرندہ ٹھیک طور پر دیکھ سکے ۔

طویل سردی کے بعد بہار کے موسم کا آ غاز ہوتا ہے  اور برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے ۔ ماحول کے ساتھ ساتھ اس پرندے کے جسم میں بھی تبدیلی شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کو شائد یقین نہ آئے کہ اس پرندے کے جسم پر سبز پر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں  با لکل ایک پودے کے سبز پتوں کی طرح۔ اس تبدیلی سے یہ پرندہ رنگ و روپ کے لحاظ سے ایک بار پھر اپنے ماحول میں ایسا گھل مل جاتا ہے کہ اسے تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دوبارہ سردی آنے تک ماحول میں رنگوں کے لحاظ سے جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہی اس پرندے کے جسم پر بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

 موسم کے مطابق بدلتے رنگوں والے اس پرندے کی مثال کو اب تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری فہم اور عقل کے لحاظ سے یہ بات ناممکن ہے کہ ایک پرندہ اپنے جسم پر موجود پروں کے رنگوں میں کسی قسم کی تبدیلی لا سکے ۔ پرندے کو یہ شعور نہیں  ہے کہ Camouflage  یا ہیئت کی تبدیلی کے کیا معنی ہیں۔ نہ ہی اسے یہ معلوم ہے کہ آنے والے موسموں میں اسے اپنے جسم پر کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ماحول میں محفوظ رہ سکے۔  یقیناً کوئی ہے جس نے اس پرندے کو اس کے ماحول کے مطابق تخلیق کیا ہے اوراسکے لیئے حفاظت کا ایک نظام بنا رکھا ہے، وہ بہترین مصور ہے اور حکمت و ذہانت کا ایک مکمل منبع و پیکر ہے۔ وہ علیم ہے اور اس بات کا مکمل ادراک رکھتا ہے کہ کس جاندار کو زندہ رہنے کے لیئے کن صلاحیتوں، اوزاروں اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور اس نے پیدائشی طور پر ان جانداروں  کو ان سے نواز رکھا ہے ۔  یہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں صرف ریگستانوں، صحراؤں اور جنگلوں تک محدود نہیں بلکہ انہیں سمندروں کی تہہ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

سمندر کا ایک شاہکار بہروپیا آکٹوپس ہے۔ اس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ سمندر کی تہہ میں جس پودے ، پتھر یا زمین پر ٹھہرتا ہے اسی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس کا یہ روپ دھارنا اس قدر مکمل ہوتا ہے کہ اگر یہ حرکت نہ کرے تو پتھر یا زمین اور اس کے جسم میں تمیز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔  اس کے اطراف میں ہی بعض جگہوں پر آپ کو سمندری جھاڑیوں کا ایک گچھا نظر آتا ہے پہلی نظرمیں یقیناً یہ جھاڑیوں کا ایک گچھا ہی ہے لیکن ذرا پیچھے ہٹ کر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ  دراصل ایک سمندری گھوڑا ہے جسے سمندری سبزے کی مانند تخلیق کیا گیاہے۔ سمندر کی تہہ میں رہنے والے کیکڑوں کو دیکھیئے، یہ کیکڑے  چھپ کر شکار کرنے اور دشمن سے چھپنے کے لیئے ایک بہت عجیب اور دلچسپ تکنیک کا استعمال کرتے ہیں جس کے بارے میں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔  یہ جس حصہ میں رہتے ہیں اس میں اگنے والے سبزے  یا جھاڑیوں کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اپنے منہ سے نکلنے والے ایک لیسدار مادے کی مدد سے اپنی پشت پر چپکا دیتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں یہ خود بھی سبزے کا ایک حصہ نظر آنے لگتے ہیں۔ پھر دشمن کی نظروں سے محفوظ چھپ کر بیٹھے رہتے ہیں، اور قریب سے گزرنے والی چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے لیئے یہ منظر ناقابلِ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح سمندر میں کچھ حشرات کے لاروے جو بہت ہی نرم و نازک اجسام والے ہوتے ہیں  اپنے اوپر چھوٹے چھوٹے پتھروں ، پتوں یا شاخوں کے ٹکڑوں کا ایک خول چڑھا لیتے ہیں اور جب تک مکمل طور پر اپنی حفاظت کے قابل نہیں ہو جاتے اسی خول میں رہتے ہیں یہ خول ان کے جسم کو شکاریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔  دلچسپ اور غور طلب بات یہ ہے کہ ان حشرات کے سامنے کوئی آئینہ تو موجود نہیں ہوتا جسے دیکھ کر انہیں معلوم ہو کہ اب یہ کیسے نظر آ رہے ہیں اور یہ کہ اس تکنیک سے انہیں کیا فوائد  حاصل ہوں گے۔ یقیناً یہ ساری صلاحیتیں انہیں پیدا کرنے والے کی جانب سے دی گئی ہیں اور انسانوں کے لئے خالقِ کائنات کے وجود کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔
خشکی پر ایسے  مزید لا تعداد جانوروں اور حشرات کی مثالیں موجود ہیں۔ جو یا تو اپنے ماحول کے مطابق پیدا کیئے گئے ہیں اور یا پھر  عارضی طور پر ہیئت کی تبدیلی کے ماہر ہیں۔ جنگل میں سبز پتوں پر رہنے والے جھینگروں  
اور لال بیگوں کی نسل سے تعلق رکھنے  کیڑے مکوڑوں اور انکے علاوہ سبز ٹڈوں اور تتلیوں کی ساخت اور بناوٹ  پر غور کیجیئے۔  ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے جسم یا پروں اور پتوں میں حیران کن حد تک مماثلت ہے۔  جب تک یہ حرکت نہ کریں آپ ان کو دیکھ نہیں سکتے نہ ان کے وجود کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مماثلت صرف رنگ کے اعتبار سے ہی نہیں ہے بلکہ پتے پر موجود ہر باریک سے باریک تر  لکیر، اور نقش ان جانداروں کے اجسام پر بھی ویسے ہی موجود ہے۔  اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ان حشرات کو معلوم ہے کہ رنگوں اور بناوٹ میں تبدیلی سے یہ اپنے ماحول میں ہر قسم کے دشمنوں سے  محفوظ رہ سکیں گے تو تب بھی یہ جاندار یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ ماحول کے مطابق اپنے رنگ و روپ کو بدل لیں۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ آکٹوپس اور گرگٹ جیسے چند جانداروں کو یہ  انوکھی صلاحیتیں بھی قدرتی طور پر دے دی گئی ہیں۔  یہ حقیقت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ڈارون  کا یہ نظریہ کہ یہ کائنات ازخود کسی حادثے کے نتیجے میں وجود میں آٗئی ہے اور یہ سب کچھ از خود ہو رہا ہے یہ بعید از قیاس ہے اور ہر گز درست نہیں۔  کائنات کا تخلیق کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جو واحد  ہے یکتا ہے، ’’المصور‘‘ ہے اور اس جیسی تخلیق کرنے والی کوئی اور ہستی موجود نہیں۔
قرآن کریم  میں خالقِ کائنات کا ارشاد ہے،  ’’اللہ بڑی برکت والا، سب سے بہتر بنانے والا ہے۔‘‘ سورۃ المومنون آیت
۱۴۔ قدرت میں نازک حشرات کی حفاظت کے لئے بنائے  گئے نظام کی کچھ مزید مثالیں ملاحظہ کیجئیے۔ باغوں میں اڑتی خوبصورت تتلیوں کی زندگی کا آغاز انڈوں سے نکلنے کے بعد ایک لاروے کی شکل میں ہوتا ہے ۔ اس لاروے کی حفاظت کے لئے ایک خول مہیا کیا گیا ہے جس میں یہ لاروا پر نکلنے اور ایک مکمل تتلی کا روپ دھارنے سے قبل کا وقت گزارتا ہے۔ اس خول کی شکل بعینہ ایک سوکھے پتے جیسی ہوتی ہے۔ اسے دیکھ کر عام طور پر  کوئی بھی پرندہ یا جانور اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، ایک مکمل تتلی کا روپ دھارنے کے بعد اس خول کی ضرورت نہیں رہتی، خول سے نکلنے کے بعد اب اس کے پروں کے دلکش رنگ قرب و جوار کے پودوں اور پھولوں کے رنگوں سے  اتنی مطابقت رکھتے ہیں کہ  ساکت بیٹھی ہوئی تتلی کو پھولوں میں تلاش کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اب یہاں ایک بہت دلچسپ بات ملاحظہ کیجیئے جو سائنسدانوں کو تحقیق سے معلوم ہوئی ہے۔  جنگلوں میں رہنے والی تتلیوں کے دشمن ہر قسم کے چھوٹے پرندے ہیں اور ان چھوٹے پرندوں کا دشمن اُلّو ہے جو انہیں شکار کرتا ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو جنگل میں کسی شاخ پر بیٹھی ہوئی تتلی جب محسوس کرتی ہے کہ اس کے قریب کوئی پرندہ موجود ہے جو اسے شکار کرنا چاہتا ہے تو یہ اپنے پر مکمل طور پر پھیلا دیتی ہے۔ تتلی کے پروں پر بنے گہرے گول دائرے،  اس کے بیچ میں دو بڑے سیاہ دھبے، دونوں گول دائروں کے درمیان بنی لکیریں اور نقش و نگار ۔۔۔بغور دیکھیئے! کیا یہ سب کسی شکل کی شبیہ تو نہیں بنا رہے؟؟ جی ہاں یقیناًیہ مکمل طور پر ایک الّو کی شکل کی شبیہ بن جاتی ہے جسے دیکھ کر پرندے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور فوراً وہاں سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ یہ ایک نازک سی تتلی کی حفاظت کاایک انوکھا نظام ہے۔ اگر یہ پر پھیلانے کی بجائے اڑ جائے تو پرندے اسے فوراً شکار کر لیں۔۔


اسی طرح پرندوں میں کبھی آپ نے  پنٹاگونیہ کے ایک اداکار پرندے کے بارے میں سنا ہے؟ یہ پرندہ اپنا گھونسلہ گھاس کے وسیع میدانوں میں بناتا ہے۔ اگر کبھی کوئی شکاری اس کے گھونسلہ کے قریب آ جائے تو یہ زخمی ہونے کی اداکاری کرنے لگتا ہے اور اپنے گھونسلہ سے دور ہٹ جاتا ہے۔  شکاری لڑکھڑاتے ہوئے اس پرندے کو آ سان شکار سمجھ کر اس کے پیچھے لپکتا ہے۔ جب یہ پرندے کے زیادہ قریب پہنچ جائے تو پرندہ اڑ کر ذرا دور چلا جاتا ہے اور پھر زخمی پرندے کی اداکاری کرنے لگتا ہے۔ جب  شکاری گھونسلے سے کافی حد تک دور چلا جائے تو پرندہ اڑتا ہوا اپنے گھونسلے میں واپس آ جاتا ہے۔

اسی طرح وینسویلا کے جنگلوں میں پایا جانے والا ایک پرندہ ’’پیٹرو‘‘  جن شاخوں پر بیٹھتا ہے اس کے رنگ اور نقش انہی درختوں کی شاخوں جیسے ہوتے ہیں۔  اگر قریب کوئی خطرہ محسوس ہو تو یہ پرندہ اپنی گردن اور سر کو آگے کی طرف جھکا کر چونچ کچھ اوپر اٹھا لیتا ہے۔ اب اس کا جسم مکمل طور پر ایک ٹوٹی ہوئی شاخ کی مانند دکھائی دینے لگتا ہے ۔ اس دوران اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں لیکن بند ہونے کے باوجود اسکی آنکھ کے پپوٹوں میں اتنا فاصلہ موجود رہتا ہے کہ یہ ارد گرد دیکھ سکے۔ 
جہاں جہاں خوبصورت گلابی آرکیڈ (
Orchid) کے پودے موجود ہیں وہاں اگر آپ کچھ غور کریں تو بعض اوقات جسے آپ بظاہر آرکیڈ کا پھول سمجھ رہے ہوں عین ممکن ہے کہ وہ آرکیڈ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا  شاندار شکاری ہو جسے مینٹس کہتے ہیں یا (Praying Mantis)۔ آرکیڈ پر رہنے والے مینٹس کی شکل غیر معمولی طور پر آرکیڈ سے مشابہ ہوتی ہے، قریب کے جانور اور انسان  پھول سے اس کی اس قدر مشابہت کی وجہ سے با آسانی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح سفید پھول کے کنارے بیٹھی  سفید مکڑی کا رنگ پھول سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ بعض اوقات پھولوں کا رس چوسنے والی تتلی اڑتے ہوئے آ کر مکڑی کے جسم پر بیٹھ جاتی ہے اور اس کا شکار بن جاتی ہے۔
قدرت میں موجود یہ مثالیں بلا شبہ خالقِ کائنات  کے وجود کا منہ بولتا ثبوت اور اس کی شاندار اور بے مثال مصوری کا نمونہ ہیں ۔

 قرآن مجید میں سورۃ الحشر میں ربِ کائنات کا ارشاد ہے ’’ وہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زور آور اور بڑائی والا، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے، جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں۔ (23) وہی اللہ ہے ، پیدا کرنے والا، وجود بخشنے والا، صورت بنانے والا ، اسی کے لیئے (نہایت) اچھے نام ہیں۔ ہر چیز خواہ آ سمانوں میں ہو یا زمین میں۔ اس کی پاکی بیان کرتی ہے۔ اور وہی غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘

کائنات میں موجود قدرت کے ان شاہکار نمونوں کو دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات محض کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ اسکے ہر ایک مظہر کے پیچھے  بے مثال حکمت اور دانائی سے بنایا گیا ایک  منظم اور مکمل نظام کارفرما ہے۔
عقل و فکر کے  گھوڑے دوڑانے والے اگر وجودِ کائنات کو روزِ روشن کی طرح عیاں ان مثالوں کے باوجود ایک اتفاقی حادثہ ہی سمجھیں تب بھی انسانی عقل  کے نتیجے میں ہونے والی ایجادات، حشرات اور جانوروں میں پیدائشی طور پر موجود ان صلاحیتوں اور ہیت کی تبدیلی کی ان انوکھی مثالوں کی کیا توجیہ پیش کریں گے؟ ڈارون کے نظریہ کے حامی اس سوال کے جواب میں مکمل طورپر خاموش نظر آتے ہیں ۔ان میں سے ایک جرمن  سائنسدان  جس کا نام  
Hoimar.V.Ditfurth  ہے، اس نے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے ۔

Who is the real author of this intelligent discovery that so amazes people? To whom does this original discovery belong and from whom does the caterpillar take it over from birth? We have to accept that these are methods that only an intelligent human being could resort to in order to survive. Whereas it is out of the question for a caterpillar to design such a plan and for it to carry it out.

ان سب باتوں اور مثالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سوچنے اور غور و فکر کرنے والے  جس قدر تخلیقِ کائنات پر غور کرتے ہیں، اللہ رب العزت پر ان کا ایمان مزید پختہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ایک چھوٹی سی مثال میں حکمت و دانائی کے اس قدر ذخیرے موجود ہیں تو زمین پر انسانوں کا پیدا کیا جانا اور انہیں اشرف المخلوقات قرار دیا جانا، جانداروں میں انسانوں کا سب سے زیادہ عقلمند اور با اختیار ہونا یہ سب کچھ غیر منطقی اور لا حاصل ہر گز نہیں ہے۔  نہ ہی یہ سب کچھ کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہے بلکہ اس تمام تخلیق کا ایک مقصد ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ تخلیق کرنے والے کے کلام پر غور کیا جائے اور اس کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا جائے۔
  
سورۃ الرعد میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ،  آپ کہیئے آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجیئے الله ہے (پھر) آپ یہ کہیئے کہ کیا پھر بھی تم نے خدا کے سوا دوسرے مددگار قرار دے رکھے ہیں جو خود اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے آپ یہ (بھی) کہیئے کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہو سکتا ہے یاکہیں تاریکی اور روشنی برابر ہو سکتی ہے یا انہوں نے الله کے ایسے شریک قرار دے رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی (کسی چیز کو) پیدا کیا ہو جیسا خدا پیدا کرتا ہے پھران کو پیدا کرنا ایک سا معلوم ہوا ہو آپ کہہ دیجیئے کہ الله ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہی واحد ہے غالب ہے۔ 16