ڈاکٹر ذاکر نائک سے سوال

 

گزشتہ دنوں   ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب جو کہ پاکستان کے دورے پر ہیں انہوں  نے ایک لڑکی کے سوال پر اس کی سرزنش کی ۔ اس حوالے سے  مختلف حلقوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔  جتنے  منہ اتنی باتیں۔   کچھ لوگ جو کسی خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور جانتے  ہیں کہ ذاکر نائک صاحب ان کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے انہیں تو گویا موقع ہاتھ آ گیا ہے ۔   جو قسم قسم کے کمنٹس دیکھنے کو مل رہے ہیں  ان کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔

’’ میں تو ڈاکٹر صاحب کو بڑی توپ چیز سمجھتا تھا  وہ تو  عام سے مولوی نکلے‘‘

’’ ایک داعی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ  سوال پوچھنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کرے۔ سوال کا جواب اچھے انداز میں دیا جا سکتا تھا‘‘

’’ پشتون لڑکی کے سوال نے  ذاکر نائک کو چاروں شانے چت گرا دیا‘‘

’’ پشتون لڑکی کے سوال پر ذاکر نائک لاجواب ہو گئے‘‘

’’  اس واقعے  کے بعد ڈاکٹر صاحب کا امیج خراب ہو گیا ہے‘‘

اس طرح کی باتیں کر کے گویا ڈاکٹر صاحب کی  دعوت کے میدان میں  عالمی سطح پر برسوں کی محنت پر  پانی پھیر دیا گیا   ہر کس و ناکس  دانشور بن کر ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرنے لگا ۔ اس سے قبل بہت سے  نامی گرامی مولوی صاحبان  سے بھی  جب پوچھا جاتا تو سخت تنقید کرتے کہ  یہ شخص     انگریزوں کا لباس پہنتا ہے ٹائی لگاتا ہے  نہ سکالر ہے نہ عالم ہے  فتوے دیتا ہے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے  وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حالیہ دنوں میں جب محترم تقی عثمانی صاحب نے ان کا خیر مقدم کیا، خوش آمدید کہا  ان سے ملاقات کی ان کے دعوت کے کام کو سراہا تو چار و ناچار   ان مقامی مولویوں کو بھی  بیانات دینے پڑے کہ ہمیں ان کا خیر مقدم کرنا چاہیئے ان کے کام سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔  جبکہ اس سے قبل بھی تقی عثمانی صاحب نے کبھی کسی شخصیت کو موضوع بحث نہیں بنایا  وہ تو پہلے بھی ڈاکٹر ذاکر  نائک کی خدمات کے معترف تھے اور باقی وہ تمام علما بھی جو متعصب نہیں ہیں، دعوت دین کی روح کو سمجھتے ہیں انہوں نے بھی کبھی  کسی شخصیت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ  قرآن و حدیث  کی دعوت  تک اپنے آپ کو محدود رکھا۔ اگر یہ مولوی صاحبان پہلے ہی تقی عثمانی صاحب کے نقش قدم پر چلتے تو  ان بیانات کی ضرورت پیش نہ آ تی ۔

 جہاں تک معاملہ لڑکی کے سوال کا ہے  تو  بات یہ ہے کہ  سوال پوچھنا بھی ایک فن ہے ۔ سوال پوچھنے سے پوچھنے والے کے ذہنی معیار اور اس کی ذہانت یا حماقت  کا اندازہ ہوتا ہے ۔  بہت سے سوال ایسے ہیں تو لا تعداد مرتبہ پوچھے گئے ہیں اور ان کا جواب بھی لوگ جانتے ہیں۔   دوبارہ پوچھنا  وقت ضائع کرنا ہے ۔ پوچھنے والے کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سا سوال کس سے پوچھا جائے  اور کن الفاظ میں پوچھا جائے۔  یہ الفاظ کی اونچ نیچ ہی تو ہے جس سے   کہنے والا  ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے کہ اس پر  کفر اور گستاخی کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں ۔  حالانکہ اس کا مقصد درحقیقت کچھ اور ہوتا ہے ۔

ذاکر نائک  صاحب کا معاملہ دیکھیئے تو  سب جانتے ہیں کہ مذاہب عالم اور تقابل ادیان ان کا موضوع ہے۔  اس ضمن میں جو بھی سوال پوچھنا ہو ان سے پوچھا جا سکتا ہے ، ما شا اللہ بہت مدلل جواب دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت کے فضل اور احسان سے لاکھوں لوگوں کے قبول اسلام  کا باعث  بنے ہیں۔

 جو صورتحال پیش آئی وہ یہ تھی کہ سوال  پوچھنے  والی لڑکی نے کہا کہ  ہمارے ہاں لوگ نمازیں  پڑھتے ہیں، دین کا علم حاصل کرتے ہیں مذہبی شعائر اپناتے ہیں یعنی داڑھی، پگڑی، ٹوپی، برقع  وغیرہ                 اور  دعوت و تبلیغ میں وقت لگاتے ہیں لیکن  پھر بھی زنا کاری، بدکاری، لواطت جیسی چیزیں  کیوں  موجود ہیں  اور  پھیلتی  جا رہی ہیں؟

اس پر غور کیجیئے کہ ایک یونیورسٹی کے طالبعلم کواتنا  شعور  تو ہونا چاہیئے کہ فیصلہ کر سکے کہ آیا اس سوال کا تعلق تقابل ادیان سے ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ بھی  جانتے ہوئے  کہ پوری دنیا میں  ڈاکٹر صاحب کو سنا اور دیکھا جاتا ہے  وڈیوز کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور  سالوں تک لوگ اسے دیکھتے ہیں  کیا ایسی باتوں سے پاکستان اور خصوصاً لکی مروت کے علاقے کی بدنامی کا اندیشہ نہیں؟ 

اگر ذاکر نائک یہ جواب دیتے کہ  بیٹا  نماز روزے عبادتیں  اور علم دین آپ کو برائیوں سے نہیں بچاتے  بلکہ  اس  کا حل کچھ اور  ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔  تو کیا معاملہ ہوتا؟   اس جیسی آیات کے احکامات  کی کیا وضاحت باقی رہ جاتی،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢١﴾‏ نور

ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وه تو بےحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالی جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔ اور اللہ سب سننے وا سب جاننے وا ہے۔

 

 اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴿٤٥﴾‏ العنکبوت

جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١﴾‏ الانعام

آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وه چیزیں پڑھ کر سناؤں جن (یعنی جن کی مخالفت) کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے، وه یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اود کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواه علانیہ ہوں خواه پوشیده، اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق کے ساتھ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔

دوسری جانب اگر وہ  کہتے کہ آپ عبادتیں اور دینی علم کا حصول  جاری رکھیں دعائیں کرتے رہیں ایک دن یہ سب برائیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی  تب بھی یہ جواب  انتہائی غیر منطقی  اور احمقانہ ہوتا۔ اور دنیا بھر میں لاکھوں  سننے والے  عبادتوں کے ساتھ ساتھ ان کاموں کے کرنے کی گنجائش بھی نکال لیتے اور  یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے کہ دین میں کوئی سختی نہیں ہے، کوئی شدت نہیں ہے برائیاں  سر زد ہوں تو کوئی بات نہیں ساتھ ساتھ  توبہ کرتے رہیں۔ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔

 جو جواب ذاکر نائک نے دیا  اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایسا ممکن نہیں۔ یا تو حقیقت یہ ہے کہ آپ  اسلامی ہونے کی ادا کاری کر رہے ہیں۔ دین اسلام  سے آپ کا کوئی تعلق  نہیں ہے  کیونکہ آپ  برقعے ، قبے  جبے، پگڑیاں پہن کر عبادتوں  سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں لیکن نہ آپ لواطت چھوڑنے کے لئے تیار ہیں نہ  بد کاری زناکاری فحاشی و عریانی  کو معاشرے سے نکالنے کے لئے تیار ہیں۔ اور یا پھر ایسا ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ بھلا  ایک ایسے معاشرے میں جہاں بقول آپ کے لوگ ’’ دین‘‘ پر مکمل طرح سے عمل پیرا ہیں اس کی قدر کرتے ہیں اسکے لئے جان دیتے ہیں وہاں بھلا  زنا کاریوں بدکاریوں اور دیگر جرائم کا کیا کام؟؟ دونوں باتوں میں کس قدر تضاد ہے ؟

چونکہ ہمارے ہاں بائی ڈیفالٹ  لوگوں کی ہمدردیاں  خواتین کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اسی لئے  ہمارے ماحول میں ویمن کارڈ کھیلا بھی جاتا ہے اور چل بھی جاتا ہے  ۔ اس خاتون کی بجائے اگر کوئی  عام   غریب بندہ پوچھتا تو  لوگ اسی کو کوستے کہ اسے بات کرنے کی تمیز نہیں احمقانہ سوال پوچھا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ قوم پرستوں  کے کمٹس بھی نظر آ رہے ہیں جن کو   مذہب سے تو کوئی خاص سروکار  نہیں لیکن یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ پشتون لڑکی  کے سوال کو کیوں رد کیا گیا ؟ اسے معافی مانگنے کا کیوں کہا گیا؟ مجموعی طور پر  علاقے کے لوگوں پر جو الزام عائد کیا اور  دنیا  بھر میں جو  بدنامی ہوئی اسے بھی پس پشت ڈال دیا  گیا۔

ہونا یہ چاہیئے تھا کہ  اگر ایسی باتیں موجود ہیں تو  ان پر تحقیق کی جاتی، مقامی  لوگوں کے انٹرویوز  کیئے جاتے  معلوم ہوتا کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت ہے یا یہ محض الزام ہے اور اگر حقیقت ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان  کے سد باب کے لئے کیا  اقدامات اختیار کرنے کی ضرورت ہے ؟ جامعہ کے لیول تک پہنچنے والے طلبا کا معیار  اور طریقہ  کار یہ ہونا چاہیئے۔  

حقیقت یہ ہے کہ ذاکر نائک صاحب نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے  وہی جواب دیا  جو کہ ہونا چاہیئے تھا ۔  چونکہ ان  کا شعبہ  ہی ایسا ہے  کہ وہ دن رات سوالوں کے جواب دیتے  رہتے ہیں  اس لئے ان کو بخوبی معلوم ہے کہ کس سوال کا جواب کس انداز میں دیا جا نا چاہیئے۔    ہمارے ہاں اس قسم کا  معاملہ اس لئے بھی سامنے  آیا ہے کہ پوری  قوم  مطالعے سے دور ہو گئی ہے ۔ نئی نسل  کے  علم  کے ذرائع چیٹ جی پی ٹی، فیس بک، یو ٹیوب، اور ٹک ٹاک ہیں ۔  کتب کا مطالعہ کرنے والا اگر  ایماندار ہو متعصب نہ ہو، حصول علم کی نیت سے پڑھتا ہو،  اس میں عاجزی  و انکساری ہو تو   اول تو یہ ایسا عقلمند  ہوتا ہے کہ اسکے لئے اشارہ ہی کافی ہے اور اگر کچھ پوچھے تو سوال  اسقدر موزوں  اور نپا تلا ہو گا  کہ   جواب دینے والا  کبھی اعتراض نہیں  کرے گا بلکہ  پوچھنے والے کی تعریف کرے گا اور اس کا شکر گزار ہو گا ۔   

اچھے سوالات پوچھنے اور ان کے جوابات کی اہمیت  کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حضرت جبرئیل امین کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا  تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ان سے سوالات پوچھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوابات دیں اور  لوگ سن کر دین سیکھیں ۔

حدیث نمبر2

‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ:" الْإِسْلَامُ: أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا". قَالَ: صَدَقْتَ. فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ. قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» . قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ. قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ. قَالَ: «مَا المسؤول عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا. قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ» . قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ» ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيل أَتَاكُم يعلمكم دينكُمْ» . رَوَاهُ مُسلم

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اس اثنا میں ایک آدمی ہمارے پاس آیا، جس کے کپڑے بہت ہی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے، اس پر سفر کے آثار نظر آتے تھے نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا، حتیٰ کہ وہ دو زانو ہو کر نبیصلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے، اور کہا: محمدصلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم! اسلام کے متعلق مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ “ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، ہمیں اس سے تعجب ہوا کہ وہ آپ سے پوچھتا ہے اور آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے، اس نے کہا: ایمان کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اور یوم آخرت پر ایمان لاؤ اور تم تقدیر کے اچھا اور برا ہونے پر ایمان لاؤ۔ “ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، پھر اس نے کہا، احسان کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکے تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے۔ “ اس نے کہا، قیامت کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”مسٔول اس کے متعلق سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ “ اس نے کہا، اس کی نشانیوں کے بارے میں مجھے بتا دیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، تنگ دست بکریوں کے چرواہوں کو بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر اور ان پر فخر کرتے ہوئے دیکھو گے۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر وہ شخص چلا گیا، میں کچھ دیر ٹھہرا۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”عمر! کیا تم جانتے ہو سائل کون تھا؟“ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل علیہ السلام تھے، وہ تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے تمہارے پاس تشریف لائے تھے۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 2]

 

 

No comments:

Post a Comment