جامعات کیسے خود کفیل ہو سکتی ہیں؟

پاکستان بھر میں جامعات آجکل مالی بحران کا شکار ہیں۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ  وہ خود ایسے ذرائع تلاش کریں جن  کے ذریعۓ مالی مشکلات دور کی جا سکیں ۔  اس حوالے سے اساتذہ کرام کی مختلف رائے ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ جامعات چونکہ  کاروباری ادارے نہیں ہیں  بلکہ تعلیمی ادارے ہیں ا سلئے ان کی توجہ  تعلیم و تدریس اورتحقیق پر ہونی چاہیئے نہ کہ پیسہ کمانے کے مختلف  النوع طریقوں پر ۔ جبکہ بعض اس امر کی اس  حد تک تائید کرتے ہیں کہ جامعات کے مقررہ اوقا ت کے علاوہ دیگر اوقات میں مختصر دورانیئے کے کورسز شروع کروائے جائیں ۔ اس حوالے سے بحث و تمحیص  اور مشاورت کے بعد چند  اہم باتیں سامنے آئی ہیں ذیل میں ان کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض یا  تمام  جامعات  کے لئے قابل عمل ہوں ۔

  • *      جامعہ کے ہال، آڈیٹوریم، کرکٹ اور فٹبال گراونڈ ، گیسٹ ہاوس وغیرہ کرایہ پر دیئے جا سکتے ہیں ۔  خصوصاً بڑی اور مشہور کمپنیاں  اپنے تعارفی پروگرام،  سیمنار اور ورکشاپ  کے لئے ہوٹلوں سے رجوع کرتی ہیں۔ اگر  ان کے لئے ھفتے میں ایک یا دو دن مخصوص   کر دیئے جائیں تو  اس میں طلبا و طالبات کو بھی سیکھنے کے مواقع ملیں گے  ۔
  • *      جامعہ کے میڈیکل سینٹر اور میڈیکل اسٹور ایسی جگہ بنائے جائیں جہاں یونیورسٹی  کے اوقات کے علاوہ بھی باہر سے مریض آ کر اپنا علاج اور ٹیسٹ کروا سکیں۔ یعنی اسکی صورت ایک چھوٹے ہسپتال کی ہو جہاں تمام سہولیات دستیاب ہوں اس سے ایک  تو   طلبا و طالبات اور اساتذہ کو رعایتی  قیمتوں پر امراض کی تشخیص کی سہولت حاصل  ہو گی دوسری جانب   لائف سائنسز کے طلبا و طالبات  اس  سے  خون کے نمونے حاصل کرنے، امراض کی تشخیص کے حوالے سے تحقیقی مواد  جمع کرنے کا کام  بخوبی لے سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی ہنگامی حالات میں جامعہ کی جانب سے رضاکار جو تربیت یافتہ ہوں   آفت زدہ  علاقوں  میں مفت میڈیکل کیمپ بھی لگا سکتے ہیں    ۔
  • *      پرائیویٹ اسکولوں اور کالجز کے اسا تذہ کے لئے تربیتی  کورسز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔  خصوصاً جن دنوں اسکول اور کالج بند ہوتے ہیں ان دنوں  اسکول کی  انتظامیہ  جامعات سے رجوع کر سکتی ہے تاکہ مناسب فیس   کے بدلے   ایک تا دو ھفتے کی  موثر  تربیت کا بندوبست ہو  ساتھ ہی جدید تکانیک سے اساتذہ کو آگاہ گیا جائے  تاکہ وہ  اسکول کے بچوں کو  جدید  زمانے    کے مزاج اور سیکھنے کے نئے انداز  سے ہم آ ھنگ کر سکیں ۔
  • *       اکثر جامعات وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہیں  لیکن   زمین سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ۔   یہ زمین جامعات کے مالیوں کی مدد سے کارآمد بنائی جا سکتی ہے ۔ انہیں کہا جائے کہ وہ اس زمین پر  چند ماہ میں اگنے اور تیار ہونے والی سبزیاں اور پھل لگائیں   ۔ یہ  کام ڈیوٹی کے مقررہ اوقات کے بعد کیا جا سکتا ہے۔  اس میں بھی بائیو ٹیکنا لوجی  اور مائکرو  بائیالوجی کے طلبا و طالبات اور اساتذہ   اپنے تجربات کو کام میں لا سکتے  ہیں  اور  ہائیڈرو فونک، ایکوا فونک، ٹنل فارمنگ، ڈرپ ایرگیشن  جیسی تکنیک پر تجربات کر سکتے ہیں ۔ اس سے جو  پھل یا سبزیاں تیار ہوں  وہ مقامی دکانوں پر فروخت کے لئے رکھی جا سکتی ہیں  اور اس کی آ مدنی میں سے مالیوں کو انکا حصہ دیا جائے تو  ان کی مالی مشکلات بھی دور ہو سکتی ہیں ۔
  • *      اگر آبادی سے کچھ دور   یا جامعہ کے اندر  غیر آباد زمین موجود ہو تو اسے ایک بہترین پارک کی شکل دی جا سکتی ہے  جس سے معقول آمدنی  حاصل کی جا سکتی ہے  اس میں عمومی چیزوں کے علاوہ  اگر  فائن آرٹس  کے شعبہ  سے تعلق رکھنے والے اپنی آرٹ گیلری بنا لیں جہاں  طلبا و طالبات  کا کام  رکھا جائے  تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور اگر چاہیں تو خرید بھی سکیں۔ اسی طرح  بائیو ٹیکنالوجی والے  منفرد قسم کے پودے تیار کر کے برائے فروخت رکھ سکتے ہیں ۔  BUITEMS  کوئٹہ  کے چلتن کیمپس میں کچھ عرصہ قبل کھمبیاں ( مشروم) اگا ئے گئے  تھے  اور اسے  مقامی دکانوں پر فروخت کے لئے بھی رکھا گیا  تھا۔ اسی طرح مالاکنڈ یونیورسٹی ،  چکدرہ میں ایک بڑا پہاڑی علاقہ  بائیو ٹیکنالوجی والوں کو دیا گیا ہے جس میں وہ   اس قسم کے بہترین کام کر سکتے ہیں۔ اگر  طلبا و اساتذہ اپنی محنت سے کچھ ایسا تیار کرتے ہیں جسے بازار میں برائے فروخت رکھا جا سکے تو  حاصل ہونے والی آمدنی  کا کچھ حصہ ان طلبا و اساتذہ کو ضرور ملنا چاہیئے تاکہ وہ  اس قسم کے تعمیری  و تحقیقی کام جاری رکھ سکیں ۔
  • *      جن جامعات میں ماس کمیونیکیشن  کے زیر انتظام  ایف ایم ریڈیو کا نظام  موجود ہے ، موجودہ مالی بحران کو دیکھتے ہوئے انہیں  اجازت ملنی چاہیئے کہ وہ مقامی مارکیٹ  سے بڑی کمپنیوں کے اشتہارات حاصل کر سکیں ۔ اس سے ہونے والی آمدنی  جامعہ اپنے مختلف تحقیقی    پروگراموں میں صرف کر سکتی ہے ۔   اسی شعبہ کے اسا تذہ اگر اپنے  طلبا و طالبات کو  جو                               ڈگری کے  حصول  کے آ خری مراحل میں ہوں  مختلف ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں سے  پروجیکٹ   حاصل کر کے  دے سکتے ہیں  جن میں  کسی خاص  معاملے  پر ڈاکومینٹری بنانا، مثلا ً  عوام کا رہن سہن، روزگار کے ذرائع، علاقے میں امن و امان کی صورتحال، زیر زمین پانی، معدنیات وغیرہ  کی معلومات  ان  پر  کام کرنے سے طلبا و طالبات بھی عملی میدان میں قدم رکھ سکیں گے اور انکی صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا ہوگا ۔
  • *      انجینیرنگ  کے طلبا و طالبات اپنے اساتذہ کے ساتھ مقامی طور پر ایسے پروجیکٹ حاصل کر کے ان پر کام کر سکتے ہیں  جن کا تعلق  سول انجینیرنگ ، الیکٹرونک  انجینیرنگ  ، پیٹرولیم اینڈ گیس، مائننگ  یا ٹیکسٹائل، فیشن اینڈ ڈیزائن وغیرہ سے ہو ۔ اسی طرح  مقامی کمپنیوں کو اگر سافٹ وئر درکار ہوں تو اس میں آئی ٹی  والے اساتذہ اور طلبا و طالبات مل کر کام کر سکتے ہیں ۔ بجائے فرضی پرجیکٹس پر کام کرنے کے  بہتر ہے کہ مارکیٹ  سے پرجیکٹ حاصل کر کے اساتذہ کی نگرانی میں ان پر کام کیا جائے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔   اب تو ماشا اللہ  ہر  شعبہ میں    پی ایچ ڈی کی سند رکھنے والے  کثرت سے موجود ہیں۔ اگر اسکے باوجود جامعہ اپنے  استعمال کے  سافٹ وئر بھی باہر کی کمپنیوں سے خرید کر   اس کی ٹریننگ دلوائے اور انہیں استعمال کرے تو یہ نا انصافی ہو گی۔

 

اس حوالے سے اگر احباب کی نظر میں مزید   طریقے ہوں تو کمنٹس میں ضرور شئیر کیجیئے گا ۔ اسے بھی مضمون کا حصہ  بنا لیا جائے گا ۔

 


No comments:

Post a Comment